ڈاکٹرنبیل فولی محمد
(استاذ العقیدہ والفلسفہ، انٹرنیشنل اسلامی یونیورسٹی)
ترجمہ: ڈاکٹر میمونہ حمزہ۔۔۔۔۔۔۔
اسلامی بیداری کے منتظر کو معلوم ہونا چاہئے کہ یہ جس قدر مسلمان مردوں کی اصلاح سے متعلق ہے اسی طرح مسلمان عورتوں کی اصلاح کے ساتھ بھی منسلک ہے؛ معاشرے کے نصف سے غافل ہو کر نجات کی کوئی امید نہیں رکھی جا سکتی، اگرچہ اس کا نصف آخر کتنا بھی قوی ہو جائے، اور وہ معاشرہ کبھی کامیاب نہیں ہو سکتا جس کی خواتین جاہل،غبی اوربلا شعورہوں، ان کے پاس علم ہو نہ فہم اور نہ عمل، خواہ اس کے مرد وں کے علم و عمل کا حال کتنا ہی عمدہ ہو اور ان کی شان کیسی ہی بلند ہو۔
عورت کی حالت میں نقصان مرد کی حالت میں نقصان جیسا ہی ہے کیونکہ دونوں کی اجتماعی ذمہ داریاں ایک دوسرے سے جڑی ہوئی، بلکہ ایک دوسرے کے ساتھ اس طرح منسلک ہیں کہ مل کر کام کرنے سے ہی مکمل ہوتی ہیں۔اور مرد خواہ وہ بڑے داعیانہ کردار کا حامل ہو یا کوئی عالم ہو،اوراپنی ذمہ داری ادا کر رہا ہو لیکن اس کی بیوی، بہن، ماں اور بیٹی اس شعور سے عاری ہو، اور معاشرے کی عائد کردہ ذمہ داری اٹھانے کے قابل نہ ہو، وہ کم ہمت ہو، اور وہ اللہ کے عائد کردہ فرائض اور معاشرے کی ترقی کے لئے انسانی ذمہ داریاں ادا کرنے سے قاصر ہو، تو معاشرے کی مطلوبہ نشونما نہ ہو سکے گی۔
رمضان کا مہینہ عمومی طور پر مرد وں اور عورتوں کے نیکیوں کے درمیان حائل فرق کو پاٹ دیتا ہے، اور بہت سے ایسے نیک اعمال اور عبادتیں جو مردوں ہی کا حصّہ قرار پاتی ہیں، رمضان المبارک میں عورتوں کے حصّے میں بھی آ جاتی ہیں، اور میرا گمان ہے کہ وہ اکثرلوگوں کی زندگی پرطویل المیعاد اثر ڈالتی ہیں ،لیکن یہاں بھی عورتیں نسبتاً کمزور ثابت ہوتی ہیں اور مردوں کی زندگی پر پڑنے والے اثرات زیادہ گہرے ہوتے ہیں۔
ہم اس مسئلے کو پوری وضاحت سے بیان کرتے ہیں، اور ہمارا اولین مخاطب خواتین ہیں، اس کے بعد ہم مردوں سے بھی مخاطب ہوں گے، تو ہم خواتین سے اس ضمن میں کیا کہیں؟ اور مردوں سے اس مسئلے میں کیا کہیں؟
اے خاتون، تم ذمہ دار ہو:
لوگ مرد اور عورت میں جس قدر بھی مقابلہ کریں،اور ان کے بارے میں دلائل دیں، اس بات سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ خواتین ذمہ دار (مخلوق) ہیں بالکل اسی طرح جیسے مرد ذمہ دار مخلوق ہیں، بلکہ وہ بھی غلط نہیں کہتے جن کے خیال میں عورت زیادہ اہمیت کی حامل اور گہری ذمہ داری کا بو جھ اٹھائے ہوئے ہے۔
بعض لوگوں کی رائے میں عورت مرد کی تکمیل کا ذریعہ ہے؛ وہ جن پہلوئوں کو ادھورا چھوڑ دیتا ہے عورت ان کی تکمیل کرتی ہے، اور زندگی کی پیہم مصروفیات میں مرد جن نقائص کو چھوڑ دیتا ہے ،عورت آگے بڑھ کر ان کو درست کرتی ہے، اس بات سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ وہ چھوٹے ذہنوں کی تیاری اور تربیت کا کام کرتی ہے، اور (ماں کی مامتا) ننھے دلوں کو طمانیت سے بھر دیتی ہے، وہ دن رات کی طویل گھڑیوں میں بچوں کو سکھانے کے لئے کمر بستہ رہتی ہے، ان کے لئے کیا درست ہے اور کیا درست نہیں وہ بڑی نرمی اور سکون سے اس میں لگی رہتی ہے، اور یہ سب کچھ سارا دن محنت کر کے رزق کما کر انکے منہ میں ڈالنے سے بھی زیادہ اہم ہے!
علمائے تربیت نے ثابت کیا ہے کہ ایک بچے کو اچھی اٹھان کے لئے دو بڑے لوگوں (مرد و زن) کی ضرورت پڑتی ہے جو اس کا مکمل خیال رکھنے والے ہوں، اس کی نگہداشت کریں، اور اس کی جسمانی عقلی اور نفسیاتی نشونما پر توجہ مرکوز رکھیں،اور یہ دونوں اس کے والدین ہی ہو سکتے ہیں ، اگر وہ تربیتی رویوں میں توازن قائم رکھیں گے اور تربیت میں ایک دوسرے کی تکمیل کرنے والے ہوں گے تو بچے کی متوازن شخصیت ابھرے گی۔
حالات کچھ بھی ہوں ایک مسلمان عورت کو یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ وہ نگہبان ہے اور اس سے اس ذمہ داری کی بابت سوال ہو گا، بالکل اسی طرح جیسے اسکا باپ راعی ہے اور اس کا بھائی بھی، اور اس کا ماموں اورچچا بھی۔ اگرچہ احوال کے لحاظ یہ یہ ذمہ داری مختلف ہو گی۔ اور ذمہ داری جس پر بھی ہو گی وہ صبر و ثبات کے ساتھ اپنے مامورین کے معاملات پر نگاہ رکھے گا،اور انہیں سستی اور خواہش ِ نفس کی پیروی سے دور رکھے گا، اور ان کے لئے یہی چاہے گا کہ وہ اللہ تعالی کی راہ میں جد و جہد کریں۔
اس میں شک نہیں کہ رمضان المبارک کا مہینہ اللہ تعالی کے دین کے مدد گاروں کا موسم ہے، اللہ تعالی چاہتا ہے کہ ہم اس میں اپنی قوتوں کو جمع کریں، اور ہم مرد ہوں یا خواتین ہم اللہ سے مدد طلب کرتے ہوئے خود کو اس کے لئے تیار کریں، اور اسی طاقت سے اپنی ذمہ داریوں کی ادائیگی کے لئے کھڑے ہو جائیں، اور اپنے فرائض کی نگہداشت کریں۔
روزہ اپنی ذات میں ایک تیاری ہے جو مسلمان مرد اور مسلمان عورت دونوں انجام دیتے ہیں۔ یہ ان میں ذمہ داری کا ایسا احساس پیدا کرتی ہے کہ جو انہیں مستقل مستعد رکھتاہے، پس عورت روزے کی قدرت کے ساتھ اپنی ذمہ داریوں کی عبا بھی اٹھاتی ہے، اور ایسا اسی وقت ہو سکتا ہے جب وہ یہ جان لے کہ اس کی ذمہ داریاں بھی اسی طرح مقدس ہیں جس طرح یہ مہینہ مقدس ہے ۔یعنی جب روزے اور دیگر واجبات کی تقدیس کا اسے ادراک ہو جائے گا۔جب روزہ رکھتے ہوئے اس کا ضعیف ہونا اس پر غالب نہیں آئے گا، اسی طرح ذمہ داریوں کا بوجھ بھی اس کے ضعف کو غالب نہیں آنے دے گا، اور وہ بحیثیت راعی انہیں ضائع نہیں کرے گی جو ذمہ داریاں زندگی نے اس پر ڈال دی ہیں۔
رمضان کا مہینہ نیکیوں سے بھرپور موسم ہے؛ پھر تو بھلائیوں کی اتنی فراوانی کا اثر بعد کے مہینوں میں بھی جاری رہنا چاہئے، اور اس کی پاکیزگی کے اثرات نفوس میں جاگزیں ہو جانے چاہئیں، اور روزے دار خواتین اور مردوں کی شخصیت میں ایسی تبدیلی ظاہر ہونی چاہئے کہ ان سے ملنے والا ہر شخص ان کی سیرت اور برتائو میں اس تغیر کو محسوس کئے بنا نہ رہ سکے۔
وہ فیض یاب ہو گی تو وہ بھی فیض یاب ہوں گے
عورت کی فطرت میں ہے ، اگر اس کی فکر کو دھندلا نہ دیا جائے،اور اس کے شعور کو سلا نہ دیا جائے تو وہ اپنے شوہر اور اولاد یعنی کنبے کے لئے کوہان بنی رہتی ہے، وہ ان کی خیر کی حریص ہوتی ہے ، اور ۔اس کے ساتھ ۔ وہ احکامات اور قابل ِ توجہ اشیاءزبانی بیان بھی کرتی رہتی ہے۔
مسلمان عورت کا شعور اور ادراک اس کے لئے لازم کرتا ہے کہ وہ اپنی اولاد ، شوہر اور کنبے کی صرف صحت، اور دنیاوی خوشی ہی کے حصول کی حریص نہ رہے بلکہ بلکہ وہ ان کی آخرت کی کامیابی کی بھی حریص بن جائے، اللہ تعالی کا فرمان ہے:
﴾یا ایھا الذین آمنوا قوا انفسکم واھلیکم ناراً،وقودھا النّاس والحجارة علیھا ملائکة غلاظ شداد لا یعصون اللہ ما امرھم ویفعلون ما یومرون﴿ (التحریم۔۶)
(اے لوگو جو ایمان لائے ہو،اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو اس آگ سے بچائو، جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہوں گے، جس پر نہایت خو اور سخت گیر فرشتے مقرر ہوں گے جو کبھی اللہ کے حکم کی نافرمانی نہیں کرتے اور جو حکم بھی انہیں دیا جاتا ہے اسے بجا لاتے ہیں۔)
اس آیت میں عورتوں اور مردوں سے عمومی خطاب ہے۔ پس جس طرح مردوں کے اہل و عیال ہیں جنہیں اس خوفناک آگ سے بچانا ہے اسی طرح عورتوں کے بھی اہل و عیال ہیں، جنہیں آگ سے بچانے کی انہوں نے کوشش کرنی ہے۔
رمضان المبارک کا مہینہ ایسی ابتداءکے لئے بہت مناسب وقت ہے؛ خاص طور پر اس وجہ سے بھی کہ اس مہینے میں لوگ کھنچ کر اپنے گھروں کی جانب آتے ہیں، یعنی یہ دوسرے مہینوں کی نسبت بیٹوں کو گھروں میں جمع کرنے والا مہینہ ہے، دنیا کے اکثر مسلمان ممالک میں ایسا ہی ہوتا ہے۔
اگر عورت رمضان المبارک سے حقیقی فائدہ اٹھائے؛ اور یہی حقیقی روزہ ہے، وہ نماز ، تلاوتِ قرآن اور ذکرِ الہی کی جانب متوجہ ہو اور غیر اہم امور سے کنارہ کشی اختیار کر لے، تو پورا گھر رمضان سے فیض اٹھائے گا، خاص طور پر آج کے زمانے میں جب عورت کو رمضان میں طرح طرح کے کھانے بنانے، مشروبات تیار کرنے اور نیند پوری کرنے میں مشغول کر دیا گیا ہے اور کم ہی ایسا ہے کہ اس کی زندگی کے شب و روز موبائل، ٹیلیوژن اور انٹر نیٹ کی مشغولیات سے پاک ہوں۔
آج کل کتنی خواتین ہیں جو راتوں کو قیام اللیل کا اہتمام کرتی ہوں، یا قرآن کریم کی تلاوت کا اہتمام کریں،یا اس مہینے میں علم حاصل کرنے کے لئے گہرائی میں سوچیں، اوررمضان المبارک کی خیر کو زیادہ سے زیادہ جمع کرنے کا شوق رکھیں، جس دن مسلمان عورت نے اسکی ابتداءکر لی، اور آگے بڑھ کر اس کی حرص دکھائی،تو یوں جانئے کہ اسی دن اس نے مردہ ہوتی ہوئی ”اسلامی حیات“ میں زندگی کی روح پھونک دی، اور ہر مسلمان عورت جو اپنے مقام پرایسی خیر کو شروع کرتی ہے وہ ایسے ہی ہے جیسے اس نے کسی سنت ِ حسنہ کو جاری کردیا ہے، اس پر اسے اپنا اجر بھی ملے گا،اور ان سب کا اجر بھی جو اس پر عمل کریں گے۔
اسے یاد دلائیے اور اس کی مدد کیجئے
ان سطور میں مردوں سے فقط یہ کہنا ہے کہ وہ یہ نہ سوچیں کہ جنت فقط ان کے لئے بنائی گئی ہے، یا نیک اعمال کی حرص اور شوق صرف انہیں پر واجب ہے، اور عورت اس معاملے میں بھلا دی جاتی ہے،کسی فالتو متاع کی مانند! اس کی حیثیت اس خادمہ سے بڑھ کر نہیں ہوتی جو مرد کی ضروریات پوری کرنے کی ذمہ دار ہے، وہ اس کے تقاضے پورے کرنے اور اسے خوش کرنے میں لگی رہتی ہے۔
اس مقام پر مرد کو سمجھ لینا چاہئے کہ عورت (شریکِ حیات) اللہ کی عبادت اور اس کی اطاعت میں بھی شریک ہے، اور نوع انسانی بشمول خواتین و حضرات اس زمین پر اللہ تعالی کا خلیفہ ہونے کا شرف رکھتے ہیں، اور اس شرف کی رنگینی یہی ہے کہ وہ اس رب کی اطاعت کرتے ہوئے بعض مواقع پر مرد اپنی بیوی اور بیٹی کو بھی اپنے ہمراہ رکھے اور ممکن ہو تو اپنی والدہ اور بہن کو بھی اس کا موقع دے۔
اس معاملے میں مرد سخت احکامات اور جابرانہ پابندیاں عائد نہ کرے، بلکہ وہ نرمی سے نیک عمل کرتے ہوئے ان کے لئے بہترین مثال بنے، اور ان میں نیکی کی حرص بڑھائے، پھر بڑی محبت اور لطافت سے انہیں اس کی تلقین کرے، اور جب بھی ان میں سستی اور اکتاہٹ پائے تو ان کی حوصلہ افزائی کر کے انہیں نیک عمل پر ابھائے، اور جب دیکھے کہ گھر کی مصروفیات اور مشغولیات ان پر حاوی ہو رہی ہیں تو ان کی مدد کرے، اور کچھ کاموں میں ان سے تعاون کرے۔
اس پر لازم ہے کہ نبی کریم ﷺ کا اسوہ اختیار کرتے ہوئے اپنے گھر والوں کو ہمیشہ عمل ِ صالح کی ترغیب دے، اس کا عمومی حالات میں بھی اہتمام کرنا چاہئے اور رمضان المبارک میں خاص طور پر اپنے اہل و عیال کو نیکی کی تلقین کرنی چاہئے۔رمضان المبارک کے خاص دنوں اور راتوں میں اس کا اہتمام بھی بڑھ جانا چاہئے، صحیح بخاری میں حدیث وارد ہوئی ہے:
عن عائشة ؓ قالت: ”کان النبیّ ﷺ اذا دخل العشر شدّ مئزرہ، احیا لیلہ، و ایقظ اھلہ“۔
(حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ جب رمضان کا آخری عشرہ شروع ہوتا تو نبی کریم ﷺاپنا تہ بند کس لیتے، راتوں کو جاگتے اور اہلِ خانہ کو بھی جگاتے۔)
عورت کو اگر اس کے گھریلو کاموں میں چھوٹ دی جائے تو وہ ان اوقات کو کسی دوسرے مصرف میں لگائے گی، اور وہ ان کاموں کو اللہ کی رضا کے حصول کے لئے عمدگی سے استعمال کرے گی، ہم اسے موقع دیں تو اس کی نماز سے روح ِ نماز غائب نہیں ہو گی، اور اس کا روزہ سحر سے افطار تک بھوکا پیاسا رہنا نہیں ہو گا، اور اسکا حج اور عمرہ محض گھر کے کاموں۔ صفائی، دھلائی اور پکائی کے غموں۔ سے چھٹکارے کی راحت نہیں ہو گا۔ جب وہ مقصدِ حیات کو جان لے گی تو پھر آپ اسے ہرگز ایسے نہ پائیں گے کہ وہ فرصت کے اوقات میں موبائل اور ٹیلیوژن پر مال اور عمر کو ضائع کرنے والے کاموں میں مشغول ہو۔
نبی اکرم ﷺ نے بندے پر ایسی مشقت ڈالنے سے منع فرمایا ہے جس کی اس میں طاقت نہ ہو، اور اگر اس پر بوجھ ڈالیں تو ہم پر لازم ہے کہ اس کی مدد کریں۔صحیح بخاری میں ابو ذرؓ سے روایت ہے کہ:
”انّی ساببتُ رجلاً، فشکانی الی رسول اللہ ﷺ فقال لی النّبیّ ﷺ: اعیّرتہ بامّہ؟! ثمّ قال: انّ اخوانکم خولکم، جعلھم اللہ تحت ایدیکم، فمن کان اخوہ تحت یدہ، فالیطعمہ ممّا یاکل، ویلبسہ ممّا یلبس، ولا تکلّفوھم مما یغلب، فان کلّفتموھم ما یغلبھم، فاعینوھم“۔
(میں نے ایک شخص کو گالی دی، تو اس نے رسول اللہ ﷺ سے میری شکایت کی۔ نبی اکرم ﷺ نے مجھ سے پوچھا: کیا تو نے اسے اس کی ماں کی عار دلائی؟ ! پھر فرمایا: بلاشبہ تمہارے بھائی (غلام ) تمہارے مدد گار ہیں، اللہ تعالی نے انہیں تمہارے زیر دست بنایا ہے، تو جس کا بھائی اس کا زیر دست ہو، وہ اسے وہی کھلائے جو خود کھاتا ہے، اسے وہی پہنائے جو خود پہنے، ان کو ایسی تکلیف میں نہ ڈالو جو انہیں مغلوب کر دے، اگر انہیں مغلوب کرنے والی تکلیف میں ڈالو ، تو ان کی مدد کرو۔“
اور بیوی تو مرد کے لئے بلا شک و شبہ غلام اور آقا کی نسبت پر نہیں ہے، وہ اس کے لئے اکرام والی ہستی ہے، اور اگر اس کی خاطر وہ گھر کے کاموں میں مدد گار بنتا ہے، تو نبی اکرم ﷺ نے خود اسے ناک (عزت) کا معاملہ نہیں بنایا، تو ان کی پیروی میں کوئی ناک (عزت کی کمی)نہیں، جبکہ اس سے دینی واجبات کی ادائیگی میں ایک رعایت پیدا ہو رہی ہے، اور اس کے کنبے کو ایسا نفع حاصل ہو رہا ہے جو محض دنیا کانہیں بلکہ آخرت تک کا نفع ہے، اور دنیا اور دین دونوں اس میں شامل ہیں۔
٭٭٭
(المجتمع، العدد۹۱۱۲، شعبان ۹۳۴۱ ھ۔ مایو ۸۱۰۲ئ)