عالی شان گھر کا اندرونی منظر

راہزن!! ’’جاذب نظر‘‘ دنیا:(رمضان المبارک کے حوالے سے خصوصی سلسلہ،تیسری قسط )

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

ایمان مغازی الشرقاوی
ترجمہ: میمونہ حمزہ

قرآن ِ کریم میں دنیا کا تذکرہ ۱۱۵ مرتبہ آیاہے، اﷲ نے اسے اپنے بندوں کے دلوں میں پسندیدہ بنایا ہے، اور اس میں شہوات کی محبت کو ان کے لئے مزین کر دیا ہے:
{زین للناس حب الشھوات من النساء والبنین والقناطیر المقنطرۃ من الذھب والفضۃ والخیل المسومۃ والانعام والحرث ذلک متاع الحیاۃ الدنیا وﷲ عندہ حسن المآب} (آل عمران، ۱۴)

اور اگر ایسا نہ ہوتا تو انسان دنیا کو آباد نہ کرتا، اور ایک لمحے کے لئے بھی اس میں رہنا پسند نہ کرتا، جیسا کہ وہ ایک ابتلاء کا گھر اور امتحان کی جگہ ہے، اور جانچ کی جگہ اور شھوات کی سرزمین، اور شبہات کی جگہ اور دشمنیوں کا گڑھ ہے۔ اس سب کے باوجود یہیں وہ واحد راستہ ہے جس میں نیکیاں کمائی جا سکتی ہیں، اسی میں ذکر ،تسبیح و تہلیل وتکبیر کے بیج ان جنتوں میں بوئے جا سکتے ہیں، ہم میں سے کوئی بھی اسی طریقے سے اپنے آخری مستقر کو پار کر سکتا ہے، یا زندگی کی سرنگ عبور کر سکتا ہے، اور اس کے زادِ راہ کو بڑھا سکتا ہے۔

اور دنیا ، میرے گمان کے مطابق اضداد پر مشتمل ہے! اگر یہ دنیا ہمارے لئے جاذبِ نظر ہے، تووہ ہمارا راستہ کاٹتی ہے اور کبھی بیچ راہ میں آکر ہمارا چلنا معطل کر دیتی ہے، اس کی محبت ہمارے سر پر سوار ہو جاتی ہے، اور ہم یہ دیکھے بنا کہ وہ کس انجام اور عاقبت کی طرف ہمیں لے کر جا رہی ہے، بگٹٹ بھاگتے چلے جاتے ہیں، وہ ہمارے لئے راستہ آسان کرتی چلی جاتی ہے، اور ہمارے قدم مضبوط جما دیتی ہے، اور ہمیں وہاں پہنچانے میں مدد دیتی ہے!

اور اگر ہم اس کی ماہیت جان لیتے ہیں، اور اس کی گود میں زندگی کا مقصد بھی جان جاتے ہیں، اور اس کی گرم گود میں تربیت حاصل کرتے ہیں، تو کیا ہم اسے اﷲ کی راہ سے روکنے والا بنائیں گے، یا اسے اپنا حامی اور مددگار بنائیں گے، تاکہ ہم سلامتی سے رہیں؟

دوست یا دشمن؟!
آپ کی کیا رائے ہے کہ اس طرح وہ ہمارے لئے ظالم ہے، اورچھپا دشمن ہے، کہ ہم اس کی قاتل اور مہلک محبت کا شکار ہو جائیں، جبکہ وہ اپنے رب کے اذن سے ہمیں اپنے اندر کے خزانے عطا کرتی ہے، اور اپنے اوپر سے خیر عطا کرتی ہے، وہ ایک لمحے کے لئے بھی انہیں مانگنے والوں، محبت کرنے والوں اور اسے چاہنے والوں سے روک کر نہیں رکھتی،

نہ انہیں دیتے ہوئے ترساتی ہے نہ غرور کرتی ہے، وہ خود کو ہر لمحے سجا بنا کر، نئے نئے رنگوں کے ساتھ، اور اپنی رونقیں بڑھا کر دنیا والوں کے سامنے پیش کرتی ہے، اور جب کوئی اسے حاصل کرنے کے لئے پوری طرح محنت کرتا ہے، تو وہ انکار کر دیتی ہے کہ اس کے چاہنے والے کے دل میں اس کے سوا کوئی اور بھی ہو، وہ ان پر قبضہ جما لیتی ہے، اور دلوں کو قید اور روحوں کو غلام بنا لیتی ہے، پس! ہم اس کے سمندر میں غرق ہو جاتے ہیں، اور وہ بڑی بے رحمی سے ہم سے ہمارا ٹھکانا چھین کر ہمیں سمندر کی سیاہ گہرائی میں چھوڑ دیتی ہے، اور اس کا عطا کردہ ٹھکانا تو ہے ہی محتاط رہنے کے قابل!

آپ سمجھتے ہیں کہ ہمارے برے سلوک کے سبب وہ مظلوم ہے، جب ہم نے اسے ضرورت سے زیادہ اہمیت دی، اور اس سے اپنے حق سے زیادہ حاصل کیا، اور ہم پر اس کی محبت اس قدر سوار ہو گئی کہ ہم نے اسے قابلِ اعتراض حد تک حاصل کرنا شروع کر دیا، اور وہ بھی ہمارے دل کے پردے چیر کر ان میں براجمان ہو گئی، حالانکہ اسے وہاں بیٹھنے کی حقیقی ضرورت نہ تھی،

اور ہم نے بھی اس کی صحیح قدر نہ کی کہ وہ کس لئے اپنے رہنے والوں کے لئے مسخر کی گئی تھی، ہم اسے نہ تو اس کا حق دے سکے اور نہ اس کی عمر کی قدروقیمت بڑھا سکے، اسی لئے ہمارے نبی ﷺ نے ہمیں اس سے ڈرایا ہے، پس فرمایا:

’’اﷲ کی قسم! مجھے تمہارے بارے میں فقر کا خوف نہیں، بلکہ میں ڈرتا ہوں کہ دنیا تم پر پھیلا نہ دی جائے، جس طرح تم سے پہلے لوگوں کے لئے پھیلائی گئی تھی، پھر تم بھی آگے بڑھ کر اسے حاصل کرنے لگو، جس طرح وہ اسے حاصل کرنے لگے تھے، اور وہ تمہیں بھی ہلاکت میں ڈال دے جس طرح اس نے اگلوں کو ڈالا تھا‘‘
ایک اور روایت میں ہے
’’اور وہ تمہیں بھی غافل کر دے جس طرح اس نے اگلوں کو کیا تھا‘‘ (اسے مسلم نے روایت کیا ہے)۔

پس کیا یہ دنیا واقعی ہماری دشمن ہے جس سے بیزار ہو جانا چاہیے، اور آپ ہمیشہ اس سے جھگڑتے رہیں اور اس سے جنگ کریں، اور اسے شکست دیں اور قتل کر ڈالیں، یا وہ ہماری مددگار دوست ہے، جس کے ساتھ کچھ شرائط کے ساتھ رہنا چاہیے؟ یا وہ دونوں کردار ایک ساتھ ادا کرتی ہے، اور ہر عقلمند، صاحب ِ خرد کو اس کی بھلائیوں اور خوبیوں کی پہچان ہونی چاہیے، تاکہ اس سے نفع حاصل کر سکیں، اور اس کے عیوب ، اور برائیوں کو الگ کریں اور انہیں دیوار سے پرے پھینک دیں؟

دنیا ترازو میں!
دنیا کو کیا تولیں، اﷲ سبحانہ وتعالیٰ کے نزدیک وہ مچھر کے پر کے بھی برابر نہیں۔ رسول اﷲ ﷺ کا فرمان ہے:’’اگر دنیا اﷲ کے نزدیک ایک مچھر کے پر کے برابر بھی ہوتی، تو وہ کسی کافر کو پانی کا گھونٹ بھی نہ دیتا‘‘ (ترمذی)، اور ابن ِ عباسؓ سے روایت ہے: نبی اکرم ﷺ ایک مری ہوئی بکری کے پاس سے گزرے، جسے اس کے گھر والوں نے پھینک دیا تھا، پس آپ نے فرمایا: ’’اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، دنیا اﷲ کے نزدیک اس سے بھی زیادہ ذلیل ہے جتنی یہ اپنے گھر والوں کے لئے ہے’’ (احمد)

نبی کریم ﷺ نے ہمیں اس سے ڈرایا اور فرمایا:’’جس میں حبِ دنیا سرایت کر گئی، اس میں تین چیزیں گڑگئیں: ایسی شقاوت جو ختم نہیں ہوتی، اور حرص جو بے پرواہ نہیں ہونے دیتی، اور ایسی آرزو جس کی کوئی انتہا نہیں ہے، پس دنیا مانگتی بھی ہے اور منگواتی بھی ہے، پس جس نے دنیا طلب کی ، اسے آخرت طلب کرتی ہے، یہاں تک کہ جب اسے موت آ جاتی ہے، تو وہ اسے پکڑ لیتی ہے، اور جو آخرت کا طلب گار ہو دنیا اسے طلب کرتی ہے حتی کہ وہ اس میں سے اپنا رزق پورا کر لیتا ہے‘‘ (الطبرانی)۔

دنیا کو حقیر جانیے، تاکہ اﷲ اور آخرت کے گھر کی محبت ہی ہماری مشغولیت ، ہمارا شغل اور اول و آخر ہماری سب سے بڑی فکر رہے، اور یہ بھی ذہن میں رہے کہ اﷲ تعالی اس دنیا میں ہمیں اسی کے ذریعے آزمائے گا، اور اﷲ نے اسے ہمارے لئے سرسبز اور شیریں بنایا ہے، جو کبھی کمزور ہے اور کبھی طاقت ور، اور اچھا سروسامان ہے، لیکن وہ دھوکے کی ٹٹی ہے، وہ اپنے ساتھی کے پاس ہمیشہ نہیں رہتا، بلکہ وہ گرمی کی دوپہر میں سائے کی مانند ہے، جس کے نیچے مسافر سستانے کے لئے ٹیک لگا لیتے ہیں، اور جب سورج سفر کرتا ہوا پیچھے کی جانب مڑتا ہے، تو وہ اسے (سائے کو) چھوڑ دیتے ہیں، اور وہ انہیں چھوڑ دیتا ہے،

اسی لئے نبی اکرم ﷺ فرمایا کرتے تھے: ’’میرا دنیا سے کیا واسطہ؟ میری اور دنیا کی مثال تو ایک سوار کی سی ہے، جو کچھ دیر پیڑ کے سائے میں بیٹھا، پھر اسے چھوڑ کر چل دیا‘‘ ( احمد)۔ اور حضرت مسیحؑ سے روایت ہے انہوں نے فرمایا: کون ہے جو سمندر کی موجوں پر گھر بناتا ہو، ایسی ہی ہے دنیا، پس اس میں ٹھکانا نہ بناؤ‘‘۔ جس نے اﷲ کے مقابلے میں دنیا کو حقیر جانا تاکہ اس کی نافرمانی نہ کرے، مگر اس میں رہے، اور اس میں موجود چیزوں کو چھوڑ دینے کے ارادے سے استعمال کرے۔

دھوکے کا سامان:
اﷲ تعالی نے اپنی کتاب ِ کریم میں اس کی صفت یوں بیان کی ہے: {وما الحیاۃ الدنیا الا متاع الغرور} (آل عمران، ۱۸۵)
مفسرین کہتے ہیں: متاع سے مراد ہر وہ چیز ہے جس سے گزر بسر ہوتی ہو اور وہ نفع مند ہو، جیسے کلہاڑی، ہنڈیا، پیالہ وغیرہ، جو فنا ہونے والی چیزیں ہیں، جن کی ملکیت باقی نہیں رہتی، یہ سب متاع ہیں، اور متاع ایسی چیز کو بھی کہتے ہیں جو مومن کو دھوکہ دے کہ وہ لمبے عرصے تک رہنے والی ہے اور وہ فانی ہو، پس اسے اپنا دل آخرت کی جانب متوجہ رکھنا چاہیے، اور دنیا اس کے لئے آخرت کی طرف جانے کا سفینہ (کشتی) ہو،

اور قتادۃ نے فرمایا: یہ متروکہ متاع ہے، اہل ِ(دنیا) کو ساتھ لے کر تباہ ہونے والی ہے؛ پس انسان اس متاع سے اﷲ کی اطاعت کرتے ہوئے جو کچھ لے سکے لے لینا چاہیے، اور اس مقام پر بعض حکماء نے کہا ہے: حیرت ان لوگوں پر ہے جن سے دنیا منہ موڑ رہی ہے، اور آخرت ان کی جانب بڑھ رہی ہے، جو سامنے ہے وہ اس میں مشغول ہیں اور جو پیچھے آرہی ہے اس سے پہلو تہی کر رہے ہیں۔

آخرت کے مقابلے میں دنیا محض ایک کھیل ہے جو ختم ہو جائے گا، خواہ وہ کتنی ہی دیر رہے، اور لہو جب بھی زیادہ دیر کے لئے ہو،وہ اپنے طالب کو مشغول کر لیتا ہے، اور جب وہ اس کی طلب میں لگ جاتا ہے تو غافل ہو جاتا ہے، اور کم کھیل زیادہ نافع ہوتا ہے کیونکہ وہ تروتازہ کر دیتا ہے، اسی طرح تھوڑا سا لہو حلال اور مباح ہے، لیکن آخرت بہتر ہے اور باقی رہنے والی ہے۔ اﷲ تعالی نے فرمایا:
{وما الحیاۃ الدنیا الا لعب ولھو ولالدار الآخرۃ خیر للذین یتقون افلا تعقلون} (الانعام، ۳۲)

پس دنیا ہر اس شخص کے لئے کھیل اور تماشا ہے، جس نے بلا مقصد اور بلا غایت اسے حاصل کیا، اور اس نے اسے آخرت کے گھر میں پہنچنے کے لئے وسیلہ اور سیڑھی نہ بنایا، جہاں کا متاع حقیقی اور ابدی ہے، اسی لئے ابن ِ عباس فرماتے ہیں: ایسی زندگی تو کافر کی ہے کہ وہ اسے غرور اور باطل میں گزارتا ہے، رہی مومن کی زندگی تو وہ نیک اعمال کی جانب مائل رہتی ہے، نہ اس میں کھیل ہوتا ہے نہ تماشا‘‘۔

اور سعید بن جبیر فرماتے ہیں: ’’متاع الغرور وہ ہے جو تمہیں آخرت کی طلب سے غافل کر دے؛ پس متاع الغرور کے لئے کوشش نہ کرو، بلکہ اس متاع کو پانے کی کوشش کرو جو اس سے بہتر ہے‘‘۔ اور کہا جاتا ہے: دنیا کی زندگی کے لئے عمل متاع الغرور ہے، اور جو دنیا کا زھد اختیار کرتے ہوئے، اور آخرت کے عمل کے لئے ترغیب ہو(وہ اصل متاع ہے)۔

دنیا کی زندگی اور پانی:
اﷲ تعالی نے دنیا کی زندگی کے لئے پانی کی مثال دی ہے، پس فرمایا: {واضرب لھم مثل الحیاۃ الدنیا کماء انزلناہ من السماء فاختلط بہ نبات الارض فاصبح ھشیماً تذروہ الریاح وکان اﷲ علی کل شیء مقتدراً} (الکھف، ۴۵)۔
حکماء کہتے ہیں: ’’اﷲ تعالی نے دنیا کو پانی سے تشبیہہ دی؛ کیونکہ پانی ایک جگہ نہیں رکتا، اسی طرح دنیا ایک شخص کے لئے نہیں رہتی، جس طرح پانی باقی نہیں رہتا اور اڑ جاتا ہے،

اسی طرح دنیا بھی فنا ہو جاتی ہے، اسی طرح ایسا نہیں ہوتا کہ کوئی پانی میں داخل بھی ہو اور گیلا نہ ہو، اور دنیا بھی اپنے میں داخل ہونے والے کو فتنوں اور آفتوں سے محفوظ نہیں رکھتی، اور پانی بھی جب ایک حد تک ہوتا ہے وہ نافع اور پروان چڑھانے کا سبب بنتا ہے، اور جب حد سے تجاوز کر جائے تو نفصان دہ اور مہلک ہو جاتا ہے، بالکل اسی طرح ضرورت بھر دنیا نافع ہوتی ہے اور اس کی زیادتی نقصان دیتی ہے‘‘۔

میرا خیال ہے کہ دنیا اور پانی میں اور بھی متشابہ چیزیں ہیں، مثلاً پانی میں جسموں کے لئے زندگی، اور بندوں کے لئے بادل اور رحمت اور نفع اتنا زیادہ ہے جس کی مثال نہیں ملتی، بلکہ اس کے کے بغیر زندگی قائم ہی نہیں رہ سکتی، یہی دنیا کا حال ہے، اس میں زادِ راہ سے لوگ جسموں کے لئے غذا پاتے ہیں، اور اس میں نیکیاں کما کر روح زندہ رہتی ہے۔

پانی وقت گزرنے کے ساتھ خشک ہو جاتا ہے اور بخارات بن کر اڑ جاتا ہے، اور پھر ایک خاص انداز میں چلنے کے بعد دوبارہ پانی بن کر ہم پر برستا ہے، مگر یہ وہ پانی نہیں ہوتا جو بخارات بن کر اڑ گیا، بلکہ اس کی جگہ دوسرا پانی آجاتا ہے، خواہ ہم چاہیں یا انکار کریں، یہی چکر چلتا رہتا ہے؛وہ ان لوگوں سے دور ہو جاتا ہے یا وہ لوگ مر کر اس سے دور ہو جاتے ہیں، اور پانی کو اگر ہم حرکت نہ دیں، یا اسے کوئی خدمت نہ لیں، اور نہ اسے بدلیں نہ صاف کریں تو ٹھہرا ہوا پانی خراب ہو جاتا ہے اور اس میں بساند پیدا ہو جاتی ہے۔ یہی حال دنیا کا ہے اگر ہم اﷲ کے حقوق ادا کرنے کے لئے اسے حرکت نہ دیں، اور بندوں کے مصالح کے لئے کام کرنے کے لئے اس میں تطور اور تجدد نہ پیدا کریں، اسے خیر کے کاموں سے آباد نہ کریں، تو وہ اس کے رہنے والوں کے لئے رک جاتی ہے اور اپنی راہیں بند کر دیتی ہے۔

ہم اس دنیا سے کتنے ہی ثمرات پا لیں، اور ہم کتنے ہی مال، اولاد اور جاہ اور اقتدار یا جمال اور جائیداد یا سامان ِ دنیا کے مالک ہو جائیں، ان سب کو زوال آ جائے گا، وہ ہم سے اور لوگوں کو منتقل ہو جائیں گے، اور ہمارے پاس باقی سرمایا صرف دلوں میں جاگزیں ایمان اور ہمارے جسم کے کئے ہوئے اعمال ہوں گے۔ اسی لئے عمر بن عبد العزیز نے فرمایا:

’’دنیا تمہارے لئے قرار کی جگہ نہیں ہے، اﷲ نے اس کے لئے فنا لکھی ہے، اور اس کے رہنے والوں کے لئے بھی کوچ کرنا لکھا ہے، پس کتنے ہی آباد(بندے) اس کے تھوڑے پر بھروسہ کرنے والے تھے جنہیں اس نے خراب کر دیا، اور کتنے ہی اس میں خوشی اور سرور سے رہنے والے تھے، جو کوچ کر گئے، پس بھلا کرو ۔ اﷲ تم پر رحم فرمائے ۔ اس سے کوچ کر جانا اس میں حاضر رہنے سے اچھا ہے، اور زاد ِ راہ لے لو، پس بہترین زاد ِ راہ تقوی ہے‘‘۔

تین اصناف:

پہلی صنف:
پہلی صنف میں وہ افراد ہیں جن کی دنیا کسی راہزن کی مانند بن جاتی ہے، جوعمل چھوڑ دیتے ہیں، یا اسے ٹالتے رہتے ہیں، اور اسے ہی چرا لینا چاہتے ہیں اور اس میں فساد مچاتے ہیں، اور ایسا تب ہوتا ہے جب دنیا ہی ان کی فکر، اور ان کی چاہت بن جائے، اور اس کا شغل اور اس کی مصروفیت بن جائے، اور وہی ان کا مقصد اور ان کا منتہی قرار پائے، اور وہ اپنا بیشتر وقت اسی میں ضائع کر دیں، اور ان کی زندگی اس(دنیا) کی خاطر بسر ہونے لگے، اور ان کی محبتیں اور نفرتیں اسی کی خاطر ہونے لگیں، اور ان کا بھائی چارہ اور دشمنیاں اسی کی خاطر ہونے لگیں،

وہ ہر طریقے سے اسے حاصل کرنے کی کوشش میں لگ جائیں، اور ذرہ برابر بھی پرواہ نہ کریں کہ آیا وہ حلال ہے یا حرام، پس حقوق ضائع ہوں، اور فرائض سے غفلت برتی جائے، اور وہ اپنے اوپر بھی ظلم کریں اور دوسروں پر بھی، یہ وہ لوگ ہیں جو خود بھی گمراہ ہوئے اور انہوں نے دوسروں کو بھی گمراہ کیا، ان کے بارے میں اﷲ تعالی کا یہ فرمان سچ ہے کہ:

{فمن الناس من یقول ربنا آتنا فی الدنیا وما لہ فی الآخرۃ من خلاق} (البقرۃ، ۲۰۰)
یہ ان سب کی مثالیں ہیں، اﷲ تعالی فرماتا ہے:
{بل تؤثرون الحیاۃ الدنیا ۰ والآخرۃ خیر وابقی} (الاعلی، ۱۶ ۔ ۱۷)
{ارضیتم بالحیاۃ الدنیا من الآخرۃ فما متاع الحیاۃ الدنیا فی الآخرۃ الا قلیل} (التوبۃ، ۳۸)
{وما الحیاۃ الدنیا الا لعب و لھو وللدار الآخرۃ خیر للذین یتقون افلا تعقلون} (الانعام، ۳۲)

اور نبی اکرم ﷺ انہیں اس کی محبت میں انتہائی کمی اور سرکش الفت، دونوں کے نتائج سے آگاہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’جس نے دنیا سے محبت کی، اس نے اپنی آخرت کو نقصان پہنچا لیا، اور جس نے آخرت سے محبت رکھی ،اس نے اس کی دنیا کو نقصان پہنچا دیا، پس باقی رہنے والی کو فنا ہو جانے والی پر ترجیح دو‘‘ (صحیح ابن ِ حبان)،

اور کہا جاتا ہے: دنیا اور آخرت ترازو کے دو پلڑوں کی مانند ہیں، جو ایک کو جھکائے گا دوسرے کو ہلکا کر دے گا، اور نتیجہ وہی ہے جو نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ’’اور دنیا جس کا غم بن گئی، اﷲ اسے اس کی آنکھوں کے سامنے اس کا فقیر بنا دے گا، اور اس کے خوف میں مبتلا کر دے گا، اور وہ دنیا اسی قدر حاصل کر سکے گا جتنی اس کے نصیب میں لکھ دی گئی ہے‘‘ (ترمذی)۔

دوسری صنف:
جو دنیا کو کلیۃ دھتکار دیں، اور اس میں سے جو انہیں مل رہا ہو، اسے بھی ترک کر دیں، اگرچہ وہ حلال اور طیب ہو، اس پر اس کا نفس اور اسے گھر والے تنگ ہوں، اور شدت سے حاجت مند ہونے کے باوجود تھوڑے پر راضی رہے، اور اپنے آپ کو اس کو حاصل کرنے کی مشقت میں نہ ڈالے، اور اس کی مشکلات سے چھٹکارا پانے کے لئے کوشش بھی نہ کرے، اور یہ سمجھے کہ ایسی ہر کوشش ایمان کے منافی ہے، اور بندگی کے مفہوم میں کمی کرتی ہے، پس وہ اس کی طلب میں دوسروں کی جانب دیکھتا رہے، اور اسباب کے ذریعے اسے حاصل کرنے کی کوشش نہ کرے، کیونکہ وہ گمان کرتا ہو کہ فقر عزت افزائی ہے، اور مال و دولت ہونا (عزت میں )کمی ہے، اسے مشکلات اور پریشانیاں پیش آتی ہیں، اسے تنگی اور مشقت لاحق ہوتی ہے، اور اﷲ عزوجل اپنے ایسے بندوں سے راضی نہیں ہوتا، کیونکہ وہی تو ہے جو ہماری تکلیفیں دور کرتا ہے، اور اس نے ہم سے بوجھ اور بیڑیاں ہٹائیں، اور رہبانیت ، کنارہ کشی، اور دنیا سے کٹ جانے کو ہم پر حرام کیا۔

یہ گروہ یہ خیال کرتا ہے کہ یہ بعینہ زہد ہے، اور وہ واقعی زاہد ہے، کچھ اور نہیں! اور یہ زاہدوں کا کیسا زہد ہے جبکہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا ہے: ’’دنیا میں زہد اختیار کرنا حلال کو حرام ٹھہرانا نہیں ہے، اور نہ مال کا ضیاع کرنا ہے، لیکن دنیا کا زہد یہ ہے کہ آپ کو اس پر بھروسہ نہ ہو جو آپ کے ہاتھ میں ہے، بلکہ اس پر کامل بھروسہ ہو جو اﷲ کے ہاتھ میں ہے‘‘ (ترمذی اور احمد)، اور ابن ِ حلا کا قول ہے: زہد، دنیا کو زوال کی نظر سے دیکھنا ہے، اس طرح وہ آپ کی نگاہ میں چھوٹی ہو جاتی ہے، اور اس سے اعراض کرنا آسان ہو جاتا ہے۔

امام احمد فرماتے ہیں: زہد تین طرح کا ہوتا ہے:
پہلا: حرام کو ترک کر دینا، اور یہ عوام کا زہد ہے،
دوسرا: حلال میں سے زائد کو ترک کر دینا، اور یہ خواص کا زہد ہے، اور
تیسرا: ہر اس چیز کو چھوڑ دینا جو اﷲ سے مشغول کر دے، اور یہ عارفین کا زہد ہے،
اسی لئے علماء نے فرمایا: زاہد وہ نہیں ہے جس کے پاس مال نہ ہو، بلکہ زاہد وہ ہے جس کے دل کو مال مشغول نہ کر لے، اگرچہ اس کے پاس قارون جتنا خزانہ بھی ہو۔

یہ دونوں صنفیں ان لوگوں کی ہیں جنہوں نے دنیا کی حقیقت سمجھے میں غلطی کھائی، وہ نہ جان سکے کہ اس سے کیسے معاملہ کیا جائے، جبکہ بنیادی وجہ ان کے اندر موجود تھی، اور یہ دونوں گروہ افراط اور تفریط کا شکار ہوئے، اور ان دونوں کا رویہ ایک دوسرے کی ضد کے باوجود غلط ہے، اور ان دونوں کا رویہ قابل ِ مذمت ہے۔

تیسری صنف:
اس کا ذکر اﷲ تعالی نے اپنی کتاب ِ کریم میں کیا ہے:
{ومنھم من یقول ربنا آتنا فی الدنیا حسنۃ وفی الآخرۃ حسنۃ وقنا عذاب النار} (البقرۃ، ۲۰۱)
ابن ِ کثیر اس کی تفسیر میں فرماتے ہیں: اس عدا میں دنیا کی سب خیر جمع ہو گئی، اور ہر شر دور ہو گیا، کیونکہ دنیا میں مطلوب ہر خیر اور بھلائی،عافیت، وسیع گھر، اچھی بیوی، کشائش والے رزق، نافع علم، عمل ِ صالح، اچھے تذکرے اور ان ہی جیسی دوسری چیزوں سے عبارت ہے، دوسرے مفسرین نے بھی تفسیر میں انہیں چیزوں کو شامل کیا ہے، اور کسی نے بھی ان کی نفی نہیں کی؛ کیونکہ یہ سب دنیا کی بھلائیوں میں شامل ہیں، رہی آخرت کی بھلائی، تو اس کا اعلی درجہ جنت میں داخلہ ہے، اور اس کے بعد حشر کے میدان میں بڑی گھبراہٹ سے امن، حساب میں آسانی، اور اچھی آخرت سے متعلق امور ہیں،

رہا آگ سے نجات کا معاملہ تو وہ دنیا کے اسباب پر مبنی ہے کہ حرام اشیاء سے کس قدر پرہیز کیا، گناہوں سے کس قدر بچے، اور شبہات اور حرام سے کس قدر کنارہ کشی اختیار کی، اسی لئے سنت میں اس عدا کو مانگنے کی ترغیب آئی ہے: انسؓ بن مالک سے روایت ہے، کہ بنی ﷺ یوں دعا فرماتے تھے:
’’اللھم ربنا آتنا فی الدنیا حسنۃ وفی الآخرۃ حسنۃ وقنا عذاب النار‘‘ (بخاری)۔
اور یہ صنف دنیا میں بھی اپنا حصہ پاتی ہے؛ تاکہ آخرت کے لئے عمل کرنے کے لئے اس سے مدد حاصل کرے، اور اس کی فکر، ان کی نیت اور مقصد آخرت کی طلب ہے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:
’’جس کی فکر آخرت ہو گی، اﷲ اس کے دل کو غنی کر دے گا، اور اس کے لئے سب کچھ شامل کر دے گا، اور دنیا بھی اسے عطا کرے گا ، اس (دنیا) کے نہ چاہنے کے باوجود‘‘۔
(المجتمع، العدد ۱۹۶۵، ۱۳ رمضان ۱۴۳۲ہ، ۱۳۔ ۸۔ ۲۰۱۱ء)

یہ بھی پڑھیے:
راہزن!! (رمضان المبارک کے حوالے سے خصوصی سلسلہ ، پہلی قسط)

راہزن!! ابلیس(رمضان المبارک کے حوالے سے خصوصی سلسلہ،قسط دوم)


٭٭٭


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں