مصنف: احمد اوزد میر:
ترکی سے عربی ترجمہ: رضوی محمد صالح:
عربی سے اردو ترجمہ: ڈاکٹر میمونہ حمزہ:
طارق سکول سے نکلا تو سوچ میں ڈوبا ہوا ہوا تھا؛ اور ایسا اسی وقت ہوتا جب اس کے دماغ میں کوئی کھچڑی پک رہی ہوتی؛ اس کے بارے میں ایک ضرب المثل بھی ہے، کہتے ہیں: ”دو اونٹوں کا سوار منزل نہیں پا سکتا“، کچھ ایسا ہی حال اس کا بھی تھا۔
اس کی جیب کے کونے میں کچھ نوٹ پڑے ہوئے تھے، اسے سکول سے واپسی پر اپنے بھائی کے لئے دوائی خرید کر گھر لے جانا تھی، اس کی والدہ نے اسے کئی مرتبہ یاد دہانی بھی کروائی تھی، انہوں نے اسے تاکیداً کہا تھا: ”او بیٹا۔ اللہ کا نام ہے۔ دوائی مت بھول جانا“۔
طارق کو یہ تو اچھی طرح یاد تھا کہ اسے بھائی کے لئے دوا خرید کر لے جانی ہے، لیکن اسے یہ بھی یاد آگیا تھا کہ کل ایک دوست کی سکول کے بعد پارٹی تھی، جس میں سب دوستوں نے شریک ہونا تھا، یہ اس کے ہم جماعت محمد کی برتھ ڈے پارٹی تھی، جس کے لئے اسے تحفہ لے کر جانا تھا، اور اس کی جیب میں جو رقم تھی اس سے صرف دوا ہی خریدی جا سکتی تھی، طارق کا دل گھٹ کر رہ گیا، اور وہ خود سے بولا:
’امی جان جب دوا کے پیسے دے رہی تھی تو اس نے ان سے کیوں نہ کہا کہ کل میرے دوست کی برتھ ڈے پارٹی ہے اور مجھے اس کے لئے تحفہ خریدنے کے لئے کچھ رقم درکار ہے، اگر میں انہیں بتاتا تو انہیں مجھے رقم دینے میں کوئی تأمل نہ ہوتا؛ لیکن اب مجھے سمجھ نہیں آرہا کہ میں تحفہ خریدوں یا دوا۔
پہلی چیز ضرورت ہے تو دوسری حق! اسے دونوں میں سے ایک کو اختیار کرنا ہے، مشکل تو یہ ہے کہ ابو جان اپنے ٹور پر شہر سے باہر جا چکے ہوں گے، اور وہ کل صبح ہی واپس لوٹیں گے، وہ بھی اس کے سکول جانے کے بعد! طارق سخت پریشان تھا، اور چلتے ہوئے بھی اس کا ذہن مسلسل سوچ رہا تھا، اچانک اس نے چھلانگ لگائی، اور زور سے بولا:
”پا لیا۔۔ زبردست آئیڈیا۔۔ اس بارے میں مجھے پہلے کیوں خیال نہیں آیا،“، ابوصبح کام سے گھر آئیں گے تو بھائی کی دوا بھی لے آئیں گے، اور صبح ان کے آنے سے پہلے میں سکول جا چکا ہوں گا، اگر میں نے اس وقت دوا خریدی تو دوست کا تحفہ نہیں خرید سکوں گا، اور دوا تو ابو صبح بھی لا سکتے ہیں، اس طرح ہم دوا بھی لے لیں گے اور تحفہ بھی!
اس سوچ نے طارق کو کافی مطمئن کر دیا؛ اور اس نے اسی کے مطابق عمل کرنے کا سوچا، اس نے تحفہ خریدنے کے لئے قدم بڑھا دیے، اس نے جیب میں ہاتھ ڈال کر رقم کو ہاتھ لگایا، وہ اسی طرح جیب کے کونے میں پڑی تھی، پیسوں کو چھوتے ہوئے اسے امی کے تاکیدی احکام بھی یاد آ گئے، امی نے کہا تھا، خبردار رقم کو ضائع نہ کر دینا؛
اسے چند روز پہلے ہی معلوم ہوا تھا کہ محمد اپنی سالگرہ پر ریموٹ کنٹرول گاڑی خریدنا چاہتا ہے؛ یہ وقت مناسب تھا کہ وہ اسے ریموٹ کنٹرول گاڑی کا تحفہ دے کر حیران کر دے؛ وہ یہی سوچتا ہوا کھلونوں کی دکان میں داخل ہو گیا، اسے لگا کہ دکان میں سجے سارے کھلونے اسے دیکھ کر مسکرا رہے ہوں، وہ بڑے اعتماد سے دکان دار سے بولا:
”میں اپنے دوست کی برتھ ڈے کی خوشی میں اس کے لئے ایک ریموٹ کنٹرول گاڑی خریدنا چاہتا ہوں“۔
دکان دار نے مسکرا کر مطلوبہ گاڑی اسے دے دی، وہ گاڑی کی رقم ادا کر دکان سے باہر نکلا، اسے خوشی کا ان دیکھا احساس ہو رہا تھا، اور کیوں نہ ہوتا؟
ہو سکتا ہے اس کا تحفہ محمد کو سب سے زیادہ پسند آ جائے؛ اسی خوشی کو محسوس کرتے وہ تیز قدموں سے چلتا گھر کے سامنے پہنچ گیا، اور اگر امی نے دوا کے بارے میں پوچھا تو ان سے کیا کہنا ہے؟ اس کا گھڑا گھڑایا جواب اس کے پاس موجود تھا، امی پوچھیں گی:
”اپنے بھائی کی دوا لانا کیوں بھول گئے؟“۔
وہ کہہ دے گا:
”امی! آپ ہمیشہ کہتی ہیں نا، تحفہ سے لوگوں میں حقیقی خوشی اور محبت پھیلتی ہے، اور تحفہ دینا تو حق ہے اور میں نے ایسا ہی کیا ہے، ان پیسوں سے میں نے اپنے دوست کے لئے تحفہ خرید لیا ہے۔
گھر کے دروازے پر پہنچتے ہی اس کا دل اچانک خوف سے لرز اٹھا؛ اس نے ٹھنڈی سانس لے کر خود کو نارمل کرنا چاہا، پھر ہاتھ بڑھا کر دروازے کی گھنٹی بجائی اور انتظار کرنے لگا، شاید امی نے آواز سنی نہ تھی، اس نے ایک مرتبہ پھر گھنٹی کا بٹن دبایا، کتنی عجیب بات تھی، دروازہ پھر بھی نہ کھلا۔
اس نے تیسری مرتبہ گھنٹی بجائی تو ساتھ والی پڑوسن خالہ فاطمہ نے بالکونی سے جھانک کر کہا:
”بیٹا، تمہاری ماں نے تمہارا بہت انتظار کیا، تاکہ تم دوا لے آؤ تو وہ تمہارے بھائی کو پلا دیں، لیکن جب تم نے بہت دیر کر دی تو تمہارے بھائی کو ایمرجنسی میں ہسپتال لے جایا گیا، اس کی طبیعت بہت خراب ہو گئی تھی۔‘‘
طارق کو کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ خالہ فاطمہ کیا کہہ رہی ہیں، اس کے سر میں بس ایک جملہ گونج رہا تھا، ”جب تم نے اتنی تاخیر کی تو تمہارے بھائی کی حالت بگڑ گئی، کیونکہ تم بروقت دوا لے کر نہیں آئے، اور پھر فوری طور پر اسے ہسپتال منتقل کر دیا گیا“۔
طارق نے اپنے ریزہ ریزہ وجود کو سمیٹنا چاہا مگر وہ اس صدمے سے بے ہوش ہو گیا، اس کا بھائی اس کی وجہ سے ہسپتال پہنچ گیا تھا۔ اسے ہوش آیا تو وہ گول کمرے میں لیٹا ہوا تھا، والدہ اس پر جھکی ہوئی اسے بلا رہی تھیں، اسے آنکھیں کھولتے دیکھ کر وہ مسکرائیں:
”تم بیہوش ہو گئے تھے“۔
طارق نے ہولے سے پوچھا:
”بھائی کیسا ہے؟“۔
وہ مسکرا کر بولیں:
”ٹھیک ہے، ہسپتال پہنچ کر آدھے گھنٹے ہی میں بہتر ہو گیا تھا، ڈاکٹر نے اسے بخار کم کرنے کے لئے انجیکشن لگایا، پھر ہم گھر لوٹ آئے، تم نے واقعی اپنے بھائی کا بہت خیال رکھا، تم اس کے لئے کھلونا خرید لائے، وہ جب سے آیا ہے، مسلسل اسی سے ہی کھیل رہا ہے، تم کتنے مہربان بڑے بھائی ہو، ہم تو پریشان تھے، تمہیں دیر کیسے ہو گئی، خدا نخواستہ تمہیں کچھ ہو نہ گیا ہو، لیکن تم تو اپنے بھائی کے لئے تحفہ خریدنے میں مگن تھے!“۔
طارق نے نگاہ اٹھا کر امی جان کی طرف دیکھا، ندامت اس کے سراپے پر چھائی ہوئی تھی، اور اس کا چھوٹا بھائی اس سب سے بے خبر ریموٹ والی گاڑی چلانے میں مگن تھا، جس کی آواز اور روشنی طارق کی ندامت میں اضافہ کر رہی تھی۔
٭٭٭
(اس کہانی کے مصنف ’احمد اوزدمیر‘ ترکی ادیب ہیں، وہ 1948ء میں ترکی کے شہر ”سیواس“ میں پیدا ہوئے، وہ کہانی کار اور ناول نگار بھی ہیں، انہوں نے ازدمیر عسکری سکول سے ثانوی تعلیم حاصل کی، اور جامعہ استنبول سے ترکی زبان و ادب میں ڈگری حاصل کی، اورپھر صحافت کے میدان میں کود پڑے۔
انہوں نے ایک ترکی جریدے میں ماہر ِزبان کی حیثیت سے بھی کام کیا، وہ صحافی تنظیموں میں کئی عہدوں پر کام کر چکے ہیں، انہیں متعدد انعامات سے بھی نوازا گیا، ان کے دو بیٹے اور تین پوتے ہیں، ان کا قلم رواں ہے اور نت نئی کہانیاں بن رہا ہے۔)
ایک تبصرہ برائے “تحفہ اور دوا”
بہت خوبصورت ، دل میں اتر نے والا انداز۔ انتہائی دلچسپ انتخاب۔۔ 🌷