سنکیانگ، چین کے عبدالحمید ترسون اور بچے

ایغورخاتون اور بچوں کے ساتھ بلجیم سفارتخانہ میں کیا بیتی

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

تزئین حسن۔۔۔۔۔۔۔
تازہ ترین اطلاعات کے مطابق بیجنگ کی بیلجین ایمبیسی کے اسٹاف نے چینی پولیس کو ایمبیسی میں داخل ہونے کی اجازت دے کر، پناہ کے متلاشی ایک مجبور ایغور خاندان کو گرفتار کروا دیا-
اس کا جرم صرف اتناتھا کہ وہ سنکیانگ یا مشرقی ترکستان میں چینی مظالم سے بھاگ کر بلجیم منتقل ہونا چاہتا تھا جہاں خاندان کا سربراہ پہلے سے مقیم تھا اور بیوی بچوں کے لئے بلجیم میں پناہ کی درخواست منظور کروا چکا تھا-

یہ خبر تین دن پہلے انڈیپنڈنٹ نے شائع کی تھی- امریکی جریدے "فارن پالیسی” کی تفصیلی رپورٹ کے مطابق عبدالحمید ترسون 2017 میں ایک بزنس دورے پر ترکی گیا تو وہاں اسے اطلاع ملی کہ اس کے بھائی کو چین میں بغیر وجہ بتائے گرفتار کر کے تعذیبی کیمپ بھیج دیا گیا ہے، ایسے کیمپوں کو چین اصلاحی کیمپوں کا نام دیتا ہے-

ان کیمپوں میں اقوام متحدہ کے اندازے کے مطابق ایک سے تین ملین ایغور قید ہیں- ترسون کے مطابق اس کے گھر والوں نے اسے چین لوٹنے سے سختی سے منع کیا- توہتی کسی طرح بلجیم پہنچا، وہاں اس نے پناہ حاصل کر کےاپنے بیوی بچوں کے لئے بھی پناہ کی درخواست دی جسے قبول کر لیا گیا-

لیکن سنکیانگ میں مقیم فیملی جب ویزا کے حصول کے لئے دوسری مرتبہ مشرقی ترکستان (سنکیانگ) سے بیجنگ کی بیلجین ایمبیسی پہنچی تو اسے بتایا گیا کہ ویزا میں تین ماہ لگ سکتے ہیں-

فیملی کس خوف و ہراس کا شکار تھی، اس کا اندازہ اس امر سے لگائیں کہ ترسون کی بیوی نے ایمبیسی سے باہر جانے سے انکار کردیا- اس نے ایمبیسی کے اسٹاف سے کہاکہ چینی پولیس پہلے ہی ہوٹل میں انہیں تنگ کر رہی ہے اور باہر جانے کی صورت میں انہیں سنکیانگ بھیج دیا جائے گا اور یہ واپس بیجنگ نہیں آ سکیں گے، اور ممکنہ طور پر انہیں گرفتار کے کہ کیمپ بھیج دیا جائے گا-

اس لئے اس کی درخواست تھی کہ جب تک ویزا نہیں مل جاتا اسے اور اس کے بچوں کو یہیں رہنے دیا جائے- رات بارہ بجے ایمبیسی اسٹاف نے انہیں ہوٹل تک چھوڑنے کی پیشکش کی جسے اس نے مسترد کردیا جس پر رات دو بجے بلجیم ایمبیسی کے اسٹاف نے فون کر کے چینی پولیس کو بلالیا اور مبینہ طور پر ایمبیسی میں داخلے اور خاندان کو پولیس تحویل میں لینے کی اجازت دی-

چینی پولیس ایمبیسی میں داخل ہوئی اور خاندان کو چار بچوں سمیت گھسیٹتے ہوئے باہر لے گئی- یاد کہ ایمبیسی اپنی جغرافیائی حدود میں میزبان ملک کے قانون کی پابند نہیں ہوتی اور اس کے اسٹاف کی مرضی کے بغیر چینی پولیس اندر داخل نہیں ہو سکتی نہ ہی خوف و ہراس کے شکار مجبوروں کو گرفتار کرسکتی تھی- انڈیپنڈنٹ کے مطابق ایک بیلجین وزیرجمعرات کے دن بیجنگ کا دورہ کرکے خاتون خانہ اور چار بچوں کے متعلق معلومات لینے کی کوشش کریں گے-

بلجیم میں مقیم شوہر کا کہنا ہے کہ پولیس اسٹیشن میں تفتیش کے بعد انہیں ہوٹل لے جا کر نظر بند کردیا گیا- تازہ ترین اطلاعات کے مطابق دوسرے دن فیملی کو پولیس نے اپنی تحویل میں لے کر سنکیانگ پہنچادیا-

شوہر کا کہنا ہے کہ جس وقت پولیس نے انہیں گرفتار کیا اس وقت بیوی اس سے فون پر رابطے میں تھی- ترسون کو کچھ ذرائع سے معلوم ہوا کہ ترپان اور ارمچی میں اس کے خاندان کے دیگر افراد سے بھی پولیس تفتیش کر رہی ہے اور خاندان سے اس کے تمام الیکٹرانک آلات پولیس نے اپنی تحویل میں لے لئے ہیں-

مزید براں اس فیملی اور ان کے خاندان کے دیگر افراد بھی اب گرفتاری کے خطرے کی زد میں ہیں- خاندان کی ایک محفوظ اور باعزت زندگی گزارنے کی خواہش اور خواب چکنا چور ہو گئے ہیں-

خطرے میں گھرے ہوئے ایک خاندان کو درخواست کے باوجود پناہ سے انکار، انسانی ہمدردی اور حقوق کا نعرہ لگانے والوں کے لئے شرم کا مقام ہے، جس کی مغربی میڈیا میں مذمت کی جارہی ہے- یاد رہے کہ پناہ کی درخواست کرنے والوں کو کسی ایسے ملک کے حوالے کرنا جہاں ان پر تشدد کا خطرہ ہو، بین الاقوامی قانون کی بھی خلاف ورزی ہے-

بیلجین ایمبیسی کا کہنا ہے کہ بلجیم ایک چھوٹا سا ملک ہے جو چینی حکومت کے دباؤ کے سامنے نہیں ٹھہر سکتا- یاد رہے کہ یہ وہ ملک ہے جسے ایک طرح سے یورپین یونین کے ہیڈ کوارٹر ہونے کا شرف حاصل ہے-

امریکی جریدے فارن پالیسی اور میرے اپنے ذرائع سے ملنے والی معلومات کے مطابق اس خاندان کے لئے سنکیانگ سے بیجنگ کا سفر متعدد وجوہات کی بنا پر انتہائی خطرناک تھا-

اول: چینی حکومت اس وقت ہر اس فرد کے خاندان کو کیمپ میں منتقل کر رہی ہے جو کسی بھی وجہ سے ملک سے باہر ہے- پچھلے دو تین سالوں میں بیرون ملک مقیم افراد کو ترغیب اور طاقت اور خاندان کی گرفتاری کی دھمکی کے ذریعے واپس آنے پر مجبور کیا گیا-

2016 سے قبل بھی لوگوں نے بتایا کہ ان کی بیرون ملک منتقلی اور چین کے لئے جاسوسی نہ کرنے کے جرم میں والدین اور بیوی بچوں یہاں تک کہ شادی شدہ بہن بھائیوں سمیت پورے پورے خاندان کو جیل میں ڈال دیا گیا-

مذکورہ خاندان کیسے اس صورت حال سے بچا ہوا تھا مجھے اس کا علم نہیں لیکن ‘فارن پالیسی’ کے مطابق ویزا کے حصول کے لئے یہ بیجنگ کا ان کا دوسرا دورہ تھا- دوسرا دس سے پندرہ ملین آبادی پر مشتمل ایغورقوم کے لئے چین میں حالات کتنے خراب ہیں اس کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ کوئی ایغور خاندان سنکیانگ سے باہر اپنے نام پر کوئی ہوٹل بک نہیں کروا سکتا-

یہ فیملی سنکیانگ سے نکلنے سے پہلے، ایک دوست کے ذریعے بیجنگ میں ہوٹل بک کروانے میں کامیاب ہوگئی تھی، لیکن رات گئے ہوٹل پہنچنے پر ان سے شناختی دستاویز مانگی گئی اور پیش کرنے پر ہوٹل نے چینی پولیس کو بلا لیا، جس نے انہیں واپس سنکیانگ جانے کا حکم دیا- فیملی کسی طرح پولیس کو صبح تک ٹالنے میں کامیاب ہو گئی- صبح ایمبیسی پہنچنے پر یہ سب واقعہ پیش آیا-

مغربی میڈیا بلجیم کے اس طرزعمل کو غیر ذمہ دارانہ قرار دے کر اس پر تنقید کررہا ہے- یاد رہے کہ یہ پہلا مغربی ملک ہے، جس نے اس طرز عمل کا مظاہرہ کیا ہے- کچھ عرصہ قبل جرمنی نے ایک ایغور پناہ گزین کو چین ڈیپورٹ کیا جس پر بعد میں جرمن حکومت نے اظہار افسوس کیا اور اعلان کیا گیا کہ آئندہ کسی ایغور کوڈی پورٹ نہ کیا جائے گا-

یہ بھی یاد رہے کہ پاکستان، عرب امارات، مصر اور سعودی عرب کی حکومتیں اپنے اپنے ملکوں میں اس مجبور قوم کے خلاف باقاعدہ کریک ڈاون کرتی رہی ہیں اور بین الاقوامی قانون کو نظر انداز کر کے انہیں چینی حکومت کے حوالے کیا جاتا رہا ہے جنہں دس سال طویل قید سے لیکر موت تک کی سزائیں دی جاتی رہی ہیں-

مجھے ترکی میں قیام کے دوران متعدد ایسے افراد سے انٹرویوز کرنے کا موقع ملا جنھیں ان ممالک سے مجبوراً فرار ہو کر بعض اوقات اپنی تعلیم، ملازمت کاروبار چھوڑ کر ترکی میں پناہ لینی پڑی کیونکہ کچھ افراد کی گرفتاری اور چین کو حوالگی کے بعد یہ اپنے آپ کو محفوظ تصور نہیں کر رہے تھے-

ترکی دنیا کا واحد ملک ہے جو انسانی ہمدردی کی بنیاد پر ان مظلوموں کو فوری پناہ فراہم کرتا ہے- مغربی ممالک گو پناہ دیتے ہیں اور وہاں انہیں اس بات کا کوئی ڈر نہیں کہ انہیں چین کے حوالے کر دیا جائے گا لیکن مغربی ممالک میں درخواست کی پراسیسنگ کا عمل بہت سست اور پیچیدہ ہے- مذکورہ واقعہ اس کی ایک بہت اہم اور واضح مثال ہے جو ایغور قوم پر چین کے مظالم کے دوسرے پہلوؤں کو بھی دنیا کے سامنے لا رہی ہے-دوسری طرف ترکی میں روزگار کے مواقع انتہائی محدود ہیں لیکن اردگان کی حکومت اور بعض عالمی چیریٹی تنظیمیں کسی حد تک انہیں سپورٹ فراہم کرتی ہیں-

یاد رہے کہ ایغور قوم کے افراد کی چین سے فرار کی کوششیں ماضی میں بھی ہوتی رہی ہیں- مجھے متعدد ایسے خاندانوں اور افراد سے انٹرویوز کا بھی موقعہ ملا جو انتہائی خطرناک راستوں سے ویت نام، کمبوڈیا، تھائی لینڈ، اور ملیشیا کے بارڈر عبور کرکے ترکی پہنچے- ان میں ایسی جوان اور بوڑھی عورتیں اور شیر خوار بچے بھی تھے جنھیں ان ممالک کی جیلوں میں رہنا پڑا-

بعد ازاں ترکی نے انسانی ہمدردی کی بنیاد پر تھائی لینڈ جیل سے بچوں اور عورتوں کو رہا کروایا- ترکی کے ایک شہر قیصری میں ان عورتوں اور بچوں کو فلیٹس کا ایک کمپلکس تیار کروا کر وہاں چھت فراہم کی گئی ہے لیکن ان خاندانوں کے سربراہ اب تک تھائی لینڈ میں جیل میں اپنے قسمت کے فیصلے کے منتظر ہیں-

چینی دباؤ کے تحت تھائی لینڈ سو کے قریب گرفتار مظلوموں کو چین کے حوالے کر چکا ہے- اسی طرح ویت نام اور کمبوڈیا نے بھی ان مظلوموں کو چینی حکام کے حوالے کیا ہے- قیصری میں میری ایسی ایک اکیلی ماں سے بھی ملاقات ہوئی جس نے تھائی لینڈ جیل میں اپنے تیسرے بچے کو انتہائی تکلیف دہ حالت میں جنم دیا- ترکی میں مقیم پناہ گزینوں میں ایسی ہولناک کہانیاں اتنی عام ہیں کہ ان سب کو ریکارڈ کرنا بھی ممکن نہیں-

یہ واقعہ ان لوگوں کے منہ پر بھی طمانچہ ہے جو چینی مظالم کو امریکی پروپیگنڈا کہہ کر نظر انداز کرنا چاہتے ہیں یا پاکستان کے وسیع تر معاشی اور جیو پولیٹیکل مفادات کو سامنے رکھتے ہوئے اس مسئلے کو نظر انداز کرنا چاہتے ہیں- مغربی میڈیا اور ذرائع بیلجین ایمبیسی کے طرز عمل کو غیر ذمہ دارانہ قرار دے رہے ہیں لیکن دوسری طرف مسلم حکومتوں اور عوام کی اکثریت کو اپنے رویئے کی بد صورتی کا احساس تک نہیں-

فلسطین، برما، کشمیر اور اب چین کے رونے تو مسلمانوں پر ظلم کے نام پر ہم رو لیتے ہیں لیکن انسانی حقوق کس چڑیا کا نام ہے اس کا شعور ہم میں سے بہت کم لوگوں کو ہے-

ضرورت اس امرکی ہے کہ ہم مظلوم کی حمایت اور سماجی انصاف کے حوالے سے قرآن کی تعلیمات کو سمجھ کر انسانی حقوق کا شعور حاصل کریں اور پاکستان کے اندر اور پاکستان سے باہر انسانی حقوق کی پامالی کے لئے آواز اٹھیں اور اپنی حکومت پر دباؤ ڈالیں کہ وہ چین سے ڈپلومیٹک تعلقات میں اس مسئلے کو بھی اپنی ترجیحات میں شامل کرے-

اگر آج ہم نے ان مظالم کے خلاف مناسب انداز میں آواز نہیں اٹھائی تو کل کو جب ہم پر یہی بیتے گی، پھر دنیا کے طرز عمل پر ہمیں شکایات نہیں کرنی چاہئے-


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں