پروفیسر انجینیئر سید محمد ہارون بخاری:
ایران میں سب سے طاقتور سیاسی اور سماجی طبقہ شیعہ علماء، آیت اللہ اور ان کے مفتیان ہیں ۔ ولایتِ فقیہہ کے تصور کے تحت رہبر آیت اللہ خامنہ ای ایران کی سب سے طاقتور شخصیت ہیں ، صدر اور پارلیمینٹ بھی ان کے تابع ہوتی ہے ۔ پارلیمینٹ کے زیادہ تر ممبر بھی مذہبی طبقہ سے ہی تعلق رکھتے ہیں ۔ ایرانی فوج جتنی ہی طاقتور ”سپاہِ پاسدارانِ انقلاب“ ہے جو ڈائریکٹ رہبر کے زیرِ کنٹرول ہے اور انتہائی طاقتور مذہبی فورس ہے ۔ خود رہبر جناب آیت اللہ خامنہ ای مدرسے کے فارغ التحصیل ہیں اور سائنسی تحقیقات و علوم سے زیادہ آشنا نہیں ہیں۔
چین میں جب کرونا کی وبا پھیلی تو ساری دنیا نے جلد یا بدیر چین سے فضائی اور زمینی رابطے منقطع کر دیے ۔ لیکن ”سپاہِ پاسدارانِ انقلاب“ کی ہوائی کمپنی ”ماہان ایئر“ نے چین سے پروازیں جاری رکھیں اور مسافروں کو چین سے ایران اور ایران سے باقی ممالک کو منتقلی جاری رکھی ۔ اس طرح ایران نے نہ صرف اپنے عوام کی صحت کو داؤ پر لگا دیا بلکہ باقی دنیا میں بھی وائرس کی منتقلی میں اہم حصہ ڈالا ۔
ایرانی سائنسدانوں اور ڈاکٹرز نے سوشل میڈیا کے ذریعہ عوام کو خطرہ سے آگاہ کرنے کی کوشش کی اور ”ماہان ایئر“ کے اس طریقہ کو ایرانی عوام کیلیے خطرناک قرار دیا لیکن ولی فقہیہ یعنی خامنہ ای صاحب کے زیرِ اثر صحافیوں کے جتھے کو یہ ٹاسک دیا گیا کہ اخبارات، ٹی۔وی اور منبروں سے ہر طرف سے وائرس کے پھیلاؤ کو جھوٹی افوہیں قرار دیا جائے ۔ چنانچہ ہر طرف سے ایرانی سائنسدانوں اور ڈاکٹرز کو لعن طعن کیا جانے لگا۔
اسی دوران اہلِ شعور نے سوشل میڈیا پر ایرانی مذہبی طبقے کے اس رویہ پر احتجاج شروع کیا لیکن نقار خانے میں طوطی کی آواز کسی نے نہ سنی ۔
وائرس ایران میں پنجے گاڑ چکا تھا ۔ ڈاکٹرز اجتماعات پر پابندی کا مطالبہ کر رہے تھے لیکن حکومت و مذہبی طبقہ ان کی کسی نصیحت کا ماننے پر تیار نہ تھا ۔ مشہد پچیس لاکھ کی آبادی کے ساتھ ایران کا دوسرا بڑا شہر تھا جہاں امام علی رضا کا روضہ ہے اور سالانہ دس کروڑ بیس لاکھ لوگ یہاں زیارت کو آتے ہیں، وہاں زیارت بھی اسی طرح جاری تھی اور مذہبی جلوس و اجتماعات بھی زور شور سے جاری تھے۔
قم میں امام علی رضا کی ہمشیرہ سیدہ معصومہ کا مزار ہے اور یہ گیارہ لاکھ آبادی کے ساتھ ایران دسواں بڑا شہر ہے، یہاں بھی زائرین کی ایک بڑی تعداد اور دنیا بھر سے طلباء آتے ہیں، قم میں بھی مشہد کی طرح سب کچھ جاری تھا۔
11 فروری کو ایرانی انقلاب کی سالگرہ تھی اس پر ہر سال پورے ایران کے ہر شہر و قصبہ و گاؤں میں جلوس نکالے جاتے ہیں ۔ ڈاکٹرز کہتے رہے کہ اس سال جلوس و اجتماعات پر پابندی لگا دینی چاہیے لیکن ان کو انقلاب دشمن قرار دے کر بھرپور طور پر اجتماعات منعقد کیے گئے۔ نہ حکومت نہ مذہبی طبقہ اپنے ہی ڈاکٹرز اور سائنسدانوں کی بات پر کان تک دھرنے کو تیار نہ تھا۔
ڈاکٹرز اور باشعور عوام پھر بھی سوشل میڈیا پر خطرات سے آگاہ کرتے رہے ۔ ڈاکٹرز وائرس میں مبتلا لوگوں کی ویڈیوز اور اس وائرس سے بچاؤ کے طریقے اپ لوڈ کر رہے تھے، قم اور باقی شہروں میں لوگ مرنا شروع ہو گئے لیکن مذہبی طبقہ ڈاکٹرز کو عوام دشمن قرار دیتا رہا ۔
24 فروری کو ایران میں پارلیمینٹ کے انتخاب کے الیکشنز ہونا تھے اور پاسدارانِ انقلاب و سیاسی علماء کی سرکردگی میں بھرپور ریلیاں اور جلسے جلوس ہو رہے تھے ۔ ڈاکٹرز اور سائنسدان ان اجتماعات کو تباہی قرار دے رہے تھے اور ان حالات میں الیکشنز کو ملتوی کرنے کا مشورہ دے رہے تھے اور مزارات پر لوگوں کی زیارت کیلیے آمد و رفت کو روکنے کا مطالبہ کر رہے تھے
لیکن ادھر مشہد کے امامِ جمعہ ”آیت اللہ علم الہدٰی“ صاحب فتوی جاری کر رہے تھے کہ جو وائرس کے ڈر سے الیکشن میں ووٹ نہ ڈالے وہ کافر ہے، مذہبی علماء مشہد اور قم میں مزارات پر جا کر دیواروں کو چاٹ رہے تھے اور اس کی ویڈیوز سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کر رہے تھے اور قہقہے لگا کر کہہ رہے تھے کہ لو میں بھی کرونائی ہو گیا ہوں۔ ہا ہا ہا ۔۔ حکومت نے کرونا سے ہلاک ہونے والوں کے ڈیتھ سرٹیفیکیٹ میں ہارٹ اٹیک لکھنے کا حکم دیا تا کہ کسی کو خبر بھی نہ ہو کہ کوئی کرونا سے مرا ہے۔
ایران میں مذہبی طبقہ نے طبِ اسلامی، طبِ اہلبیت اور طبِ معصومین کے نام کئی ادارے کھول رکھے ہیں ۔ حکومتِ ایران نے بھی ”دانشکدہءِ طبِ سنتی“ اور ”مرکزِ طبِ معصومین“ کے نام سے ادارے کھول رکھے ہیں ۔ دانشکدہ طبِ سنتی کے سربراہ ایک مذہبی شخصیت ”آیت اللہ تبریزیان“ ہیں اور ان کو اپنے ”طبی اجتہاد“ پر بڑا مان ہے ۔
آیت اللہ تبریزیان صاحب کرونا وائرس کے علاج کیلیے اسلام، اہلبیت اور معصومین کے ناموں کا استعمال کر کے نت نئی معجونیں تیار کر کے بیچ رہے تھے اور خوب کمائی فرما رہے تھے ۔ جب وائرس کی ہلاکت خیزیوں نے ایران کو لرزا کے رکھ دیا تب تبریزیان کو ”قم کا ابوجہل“ کا خطاب دیا گیا ۔ غرض ہر طرف مذہبی رہنما معصوم اور بھولے بھالے عوام کو تباہی کی دلدل میں دھکیلتے چلے جا رہے تھے۔
24 فروری کو پارلیمینٹ کے الیکشن منعقد ہو گئے اور وائرس کو پھیلانے میں اہم کردار ادا کر گئے ۔ الیکشن کے بعد 24 فروری 2020 کو رہبر جناب آیت اللہ خامنہ ای نے خطاب میں فرمایا کہ ایران میں کرونا وائرس کی افواہیں دشمنوں نے اڑائی تھیں تا کہ عوام الیکشن میں شریک نہ ہوں ۔۔۔۔ ( آپ اندازہ فرمائیں کہ ایران کی یہ حالت ایسے ہی نہیں ہو گئی)
الیکشن کے بعد قم کے ایم این اے نے بیان دیا کہ میرے شہر کے پچاس لوگ کرونا وائرس سے ہلاک ہو چکے ہیں تو اس پر ملک دشمنی کا الزام لگا دیا گیا ۔
علماء اور مذہبی طبقے نے اعلان کیا کہ کرونا وائرس کی شفا چاہتے ہو تو امام علی رضا اور حضرت سیدہ معصومہ کے روزہ پر حاضری دو ۔ بیچارے عوام جوق در جوق شفا کی تلاش میں مزارات پر حاضر ہونے لگ گئے اور جواب میں مزید مریض ہو کر واپس پلٹنے لگے۔ (یا للعجب! بندہ کس کو قصور وار کہے )
قم اور مشہد کے علماء نے کرونا وبا کی اطلاعات کو عزاداری اور زیارت کے خلاف عالمی سازش قرار دے دیا ۔ اصفہان کے علماء نے الٹا مومنین کرام کے عزاداری جلوس نکلوا دیے ۔ اب کرونا بیچارہ کیا کرتا، اس نے تو پھلینا ہی تھا ۔۔۔ علماء کرام تو جیسے ”نفسیاتی مالیخولیا“ کے مریض بن چکے تھے جن کا خود دماغی علاج ضروری تھا۔
حالات بگڑتے گئے، ہر جگہ لوگ مرنے لگے، جب خود علماءِ کرام، آیۃ اللہ صاحبان ، حکومتی عہدیداران اور ان کے رشتہ داروں میں بھی بیماری کی علامات ظاہر ہونے لگیں تو علماءِ کرام اور حکومت کے ہاتھ پاؤں پھولنے لگے ۔ الیکشن سے صرف تین دن بعد ہی حالت یہ ہو گئی کہ رہبرِ محترم جناب آیۃ اللہ خامنہ ای نے ٹی وی پر آ کر وائرس کے وجود کا اقرار کیا اور اس مرض کے خلاف لڑنے والے ڈاکٹرز، نرسز اور سائنسدانوں کا شکریہ ادا کیا لیکن
اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت ۔
3 مارچ کو رہبرِ محترم دوبارہ ٹی وی پر نمودار ہوئے اور اپنی 24 فروری والی تقریر سے صاف مکر گئے اور کہا کہ ہم نے تو عوام کو بر وقت اس وبا سے آگاہ کر دیا تھا ۔
اب تک شیعہ مرجع تقلید آیت اللہ شبیری زنجانی کی بہن اور بھانجا کرونا وائرس سے ہلاک ہو چکے ہیں ۔ آیت اللہ رضا لنگروی، آیت اللہ ہاشم بطحانی، مولانا جمال خلیلیان، مولانا محمد رضا شفیعی، مولانا ہادی خسرو شاہی، مولانا عبدالحمید مقدسیان، مرکزِ طب معصومین کے منتظم اور آیت اللہ تبریزیان( قم کا ابوجہل) کے شاگرد مولانا شہریار شریفی ، مولانا حسین شیخ الاسلام کے علاوہ بہت سے اور مذہبی رہنما اس وائرس سے ہلاک ہو چکے ہیں ۔
جبکہ حکومتی عہدیداران میں نائب صدر محترمہ معصومہ ابتکار، نائب وزیرِ صحت، مرکزی سیکرٹری زراعت رضا پور خان علی، سپاہ پاسداران انقلاب کے انٹیلی جینس چیف رمضان پور قاسم، ممبر پارلیمینٹ محترمہ فاطمہ زہرہ کے علاوہ بیسیوں حکومتی افراد وائرس میں مبتلا ہیں اور شفا کی تلاش میں ڈاکٹرز سے علاج میں مصروف ہیں ۔
ایران ہی کرونا وائرس کو پاکستان میں پھیلانے کا سبب بنا ۔ وہ پاکستانی زائرین جو قم اور مشہد میں جا کر دیگر زائرین سے گھل مل کر رہے ان میں وائرس منتقل ہو گیا لیکن زیادہ خرابی تفتان بارڈر پر ہوئی جہاں حکومتی نا اہلی سے متاثرین اور غیر متاثرین کو اکٹھا رکھ کر وائرس کی مزید منتقلی کا موقع فراہم کیا گیا ۔
ایران کے واقعات سے ہمیں سبق سیکھنا چاہیے ۔ ہمارا جذباتی علماء کا طبقہ بھی ایران کے علماء جیسا مظاہرہ کر رہا ہے اور عوام کو اسی طرح کی رہنمائی دینے کی کوشش کر رہا ہے لیکن شکر ہے کہ ہمارے اکثر علماء کرام صحیح رہنمائی کر رہے ہیں اور ایک قلیل طبقہ ایرانی روش پر گامزن ہے۔
یاد رکھیں کہ اس وباء سے صرف ڈاکٹرز ، سائنسدانوں اور حکومت کی ہدایات کی روشنی میں ہی بچنا ممکن ہے اور زیادہ سے زیادہ تنہائی میں وقت گزارنا ہی اس سے بچاؤ کا ذریعہ ہے ۔ جہاں تک توبہ و استغفار کا تعلق ہے اور اللہ سے مدد مانگنے کی بات ہے تو وہ سب سے زیادہ ضروری ہے لیکن تدبیر کو چھوڑ کر نہیں کیونکہ تدبیر بھی تقدیر کا ہی حصہ ہے ۔ تدبیر سنتِ رسول ہے اور تقدیر اذنِ الہی ہے ۔ کسی کا انکار ممکن نہیں ۔
اگر تدبیر کے تحت مساجد میں جماعت اور اجتماع جمعہ پر پابندی لگانا ضروری ہو جاتا ہے تو حکومتی ہدایات پر خوشدلی سے عمل کرنا چاہیے ۔ لوگ باقی بچے تو ہی مساجد بھی آباد رہیں گی جب لوگ ہی باقی نہ بچے تو خالی مساجد کی عمارات کا کیا کرنا ہے ۔ انسانی جان کو رسولِ پاک نے کعبہ سے بھی محترم قرار دیا ہے لہذا ایک بھی انسانی جان اگر کعبہ و مسجد کی حرمت کے بدلے بچ سکے تو عین اسلام ہے ۔
(ایرانی حکومت یا اس کا کوئی نمائندہ اس رپورٹ کا جواب دینا چاہے تو ”بادبان“ اسے بخوشی اور مکمل شائع کرے گا۔)
ایک تبصرہ برائے “ایران میں کرونا کے پھیلائو کی کہانی، حیرت انگیز تفصیلات”
میں بہت افسوس سے لکھ رہا ہوں کہ پروفیسر صا حب کی یہ تحریر ایک فکشن کہانی سے بڑھ کر اور کچھ نہیں۔ انہوں نے اس تحریر میں اتنے بلند و بانگ دعوے کیے ہیں کہ جیسے محترم ایران کی خفیہ ایجنسی کے رُکن ہیں اور ہر خبر ان تک لازمی پہنچتی ہے اور ان کو ہر شے کی خبر ہے۔ اس تحریر کا جواب دینا مجھ پر فرض ہے۔