ڈاکٹرشائستہ جبیں:
انسان دنیا میں جس شخص اور جس چیز سے محبت کرتا ہے اس کی ملاقات اور حصول کی راہیں تلاش کرتا ہے اور اس کو کھو دینے کے خوف میں ہمہ وقت اس کا دل مضطرب و بے سکون رہتا ہے. نتیجتاً وہ اپنے محبوب کو ناراض کرنے والے ہر عمل سے دور ہوتا چلا جاتا ہے۔ ایک مومن کی شان یہ ہے کہ وہ اپنے رب سے محبت کرتا ہے اور اس کی ناراضگی کے خوف میں مبتلا رہتا ہے۔ قرآن مجید نے ایل ایمان کا یہ وصف خود بیان فرمایا ہے:
والذین آمنوا اشد حب للہ
ترجمہ:ایمان والے اللہ سے سب سے زیادہ محبت کرتے ہیں. (البقرۃ 2:165)
اللہ عزوجل کی محبت اتنی قیمتی اور نایاب چیز ہے کہ خود محبوبِ خدا صلی اللہ علیہ والہ و سلم اس کے لیے دعا فرمایا کرتے تھے. ترجمہ:” اے اللہ میں تجھ سے تیری محبت کا سوال کرتا ہوں، اور اس شخص کی محبت کا سوال کرتا ہوں جو تجھ سے محبت کرتا ہے“. (جامع ترمذی)
بندے کا اس وقت تک ایمان مکمل نہیں ہوتا جب تک وہ رب کائنات سے سچی، حقیقی اور سب سے بڑھ کر محبت نہ کرے. پہلے ہم یہ دیکھتے ہیں کہ اللہ رب العزت کی محبت درحقیقت ہے کیا؟
اللہ کی محبت کا مفہوم :
اللہ تعالیٰ سے محبت کا اللہ تعالیٰ کی ذات سے دلی لگاؤ، اس سے اُنسیت، اس کے احکامات کے مطابق عمل اور دل پر اللہ کے ذکر کا غالب ہونا ہے۔ اللہ تعالیٰ سے محبت وہی کر سکتا ہے جو اللہ کو پہچان لیتا ہے اور پہچان کا یہ اعزاز بھی خوش نصیبوں کے مقدر میں ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ سے محبت کرنے والا اس کی عبادت و بندگی کو محبوب رکھتا ہے، اس کے سامنے عاجزی و انکساری اور تعظیم کا مظاہرہ کرتا ہے۔ محبت رکھنے والے کے دل میں جتنی اللہ تعالیٰ کی عظمت و ہیبت ہو، جو اس کو اللہ رب العزت کے احکام پر عمل کرنے اور اس کی منع کردہ چیزوں سے اجتناب کا تقاضا کرائے، یہی محبت ایمان اور توحید کی اصل ہے۔
محبت کے مفہوم میں اس مقام، وقت، اشخاص، اعمال، اقوال اور ان جیسی ساری چیزوں سے محبت کرنا بھی شامل ہے جن کو اللہ تعالیٰ پسند کرتے ہیں۔ یہ بھی ضروری ہے کہ اللہ تعالیٰ کی محبت صرف اسی ایک کے لیے خالص وسچی ہو اور ویسی ہی فطری محبت ہو جیسے بیٹے کی اپنے باپ سے محبت، باپ کی بیٹے سے محبت، شاگرد کی استاد سے محبت وغیرہ۔
اللہ رب العزت کی محبت بھی اسی طرح ہمارے خون اور رگوں میں زندگی کی طرح دوڑتی ہوئی ہونی چاہیے جس میں ذرا سی رکاوٹ سے ہماری سانسیں رکنے لگیں. اللہ عزوجل کی محبت ہر ایک دل کا نصیب نہیں ہوتی بلکہ اس کے لیے پاکیزہ اور باادب دلوں کا انتخاب ہوتا ہے. اس کے لیے پہلے اپنے دل کو خالص کرنا ہوتا ہے۔
اللہ سے محبت کی بنیادی وجوہات
اللہ تعالیٰ سے محبت ایمان کا تقاضا ہے اور اس وقت تک عقیدہ توحید مکمل نہیں ہو سکتا جب تک بندہ اپنے رب سے محبت نہ کرے. اللہ رب العزت کے سوا کوئی بھی ذات ایسی نہیں ہے جس سے مکمل طور پر محبت کی جائے کیونکہ الوہیت، عبودیت، خشوع و خضوع اور مکمل محبت کے لائق و زیبا صرف وہی ایک ذات ہے۔ اللہ کی محبت کی شان جیسی کوئی شان نہیں، کیونکہ خالق و موجد سے زیادہ دلوں کو محبوب چیز کوئی اور ہو نہیں سکتی، وہی معبود برحق ہے، ولی ہے، مولیٰ ہے، رب ہے، تدبیر کرنے والا ہے، رزق دینے والا ہے، موت و حیات کا مالک ہےاور اسی کی محبت دلوں کی نعمت ہے،
روح کی حیات ہے، نفس کا سرور ہے، دلوں کی غذا اور عقلوں کا نور ہے. یہی آنکھوں کی ٹھنڈک اور اندرونی عمارت ہے اورمخلص دل، پاکیزہ روح اور عقل سلیم کے مطابق اللہ کی محبت، اس سے اُنسیت اور اس کی ملاقات کے شوق سے زیادہ خوبصورت، پاکیزہ اور بہتر نعمت اور کوئی نہیں۔
مشہور تابعی یحییٰ بن معاذ رحمہ اللہ فرماتے ہیں :” جب اس کی معافی تمام گناہوں کو ڈھانپ لیتی ہے تو اس کی رضا کا کیا عالم ہو گا؟ اور جب اس کی رضا امیدوں کو سمیٹ لیتی ہے تو اس کی محبت کیسی ہو گی؟ اور جب اس کی محبت کا یہ عالم ہو کہ وہ عقلوں کو حیران کر دے تو اس کی مؤدت کیسی ہو گی؟ اور اس کی مؤدت تو سب کچھ بھلا دے گی تو اس کا لطف کیسا ہو گا؟
انسان اللہ تعالیٰ سے جتنی زیادہ محبت کرتا ہے، اتنی ہی ایمان کی لذت اور مٹھاس اسے حاصل ہوتی ہے اور جس کا دل اللہ کی محبت سے بھر جائے، اللہ اسے دوسروں کی محبت، ڈر اور ان پر توکل کرنے سے اپنے بندے کو بے نیاز کر دیتا ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ کی محبت کے بغیر بھی اسے وہ سب کچھ مل جائے جس سے اسے لذت حاصل ہو تب بھی اسے امن و اطمینان اور سکون نہیں ملے گا کیونکہ آنکھوں کا نور، کانوں کی سماعت، ناک کا سونگھنا، زبان کا بولنا ان تمام نعمتوں کے ختم ہونے سے اتنی تکلیف نہیں ہوتی جتنی تکلیف اللہ کی محبت دل سے نکل جانے سے ہوتی ہے۔
حقیقی محبت تو یہ ہے کہ آپ خود کو مکمل طور پر اس ذات کے حوالے کر دیں جس سے آپ محبت کرتے ہیں یہاں تک کہ آپ کے پاس اپنا کچھ نہ رہے، اور اللہ تعالیٰ کی سچی و حقیقی محبت وہی ہے جو دیگر تمام محبتوں پر غالب اور مقدم رہے اور بندے کی تمام تر محبتیں اُسی (اللہ کی) محبت کے تابع ہونی چاہئیں، اسی میں بندے کی سعادت اور کامیابی ہے.
اللہ تعالیٰ کی محبت کی اقسام
حرم نبوی شریف کے امام نے اپنے ایک خطبہ جمعہ میں اللہ تعالیٰ کی محبت کی چار اقسام بیان کی ہیں. ان اقسام میں فرق کو پہچاننا اور فرق ملحوظ رکھنا بہت ضروری ہے:
پہلی قسم (اللہ سے محبت کرنا)
عذاب سے بچنے اور ثواب حاصل کرنے کے لیے محض اللہ تعالیٰ کی زبانی و دلی محبت کافی نہیں بلکہ اس کے ساتھ ساتھ محبت کے عملی تقاضوں کو پورا کرنا بھی ضروری ہے۔
دوسری قسم (ہر اس چیز سے محبت کرنا جو اللہ کو پسند ہے)
اسی محبت کی بدولت انسان اسلام میں داخل ہوتا ہے یا اس سے باہر ہوجاتا ہے. جو ہر اس چیز سے محبت کرے جس سے اللہ محبت کرتا ہے تو وہ اسلام کے اندر ہے اور جو ہر اُس چیز سے محبت نہ رکھے جس سے اللہ رب العزت محبت کرتے ہیں تو وہ دین اسلام سے باہر ہو گا۔ اس کے معنی یہ بھی لیے جا سکتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کو دین اسلام سے محبت ہے اسی لیے اُس نے اپنے بندوں کے لیے اسے بطورِ دین پسند فرمایا ہے، جو اللہ سے محبت کرتا ہے وہ اسلام اور اس کے احکامات سے عملی محبت کرتا ہے اور جو اللہ سے محبت نہیں کرتا وہ اسلام سے بھی محبت نہیں کرتا اور اللہ کے نزدیک سب سے محبوب انسان وہ ہے جس کی یہ محبت ہر محبت سے زیادہ شدید اور سب سے بڑھ کر قوی ہوتی ہے۔
تیسری قسم (اللہ کے لیے اور اللہ کی چاہت کے مطابق محبت)
یہ اللہ کی محبوب چیزوں سے محبت کرنے کا تقاضا ہے اور اللہ کی پسندیدہ چیزوں کی محبت اس وقت تک مکمل نہیں ہوتی جب تک اللہ کی چاہت کے مطابق اللہ ہی کے لیے محبت نہ ہو۔
چوتھی قسم (اللہ کے علاوہ کسی اور سے ایسی محبت کرنا جو اللہ کے لیے نہ ہو)
مومن کا ہر عمل اللہ رب العزت کی محبت سے بھرپور ہوتا ہے. وہ اگر اللہ کے علاوہ کسی اور سے محبت کرتا بھی ہے تو وہ محبت بھی اللہ کی رضا کی خاطر ہوتی ہے اور جو شخص بھی اللہ کے لیے نہیں بلکہ اللہ کے ساتھ کسی دوسری چیز سے بھی محبت کرتا ہے تو یہ محبت جائز نہیں ہے۔ اللہ کے لیے کسی دوسرے سے محبت کرنے میں اور ایسی محبت جو کسی دوسرے سے ہو پر اللہ کے لیے نہ ہو، فرق ملحوظ رکھنا ضروری ہے
کیونکہ ارشاد ربانی ہے. ومن الناس من یتخذ من دون اللہ انداداً یُحبونھم کحب اللہ والذین آمنوا اشد حب للہ.
ترجمہ :بعض لوگ ایسے بھی ہیں جو اللہ کے شریک اوروں کو ٹھہرا کر ان سے ایسی محبت رکھتے ہیں جیسی محبت اللہ سے ہونی چاہئے، اور ایمان والے اللہ کی محبت میں شدید تر ہیں. (البقرۃ 2:165)
اللہ کی محبت کے اسباب
اللہ کی محبت تبھی دلوں میں گھر کر سکتی ہے جب ہم اس محبت کو پیدا کرنے والے اور نمو دینے والے اسباب سے واقفیت حاصل کر لیں.
نعمتوں کی پہچان
اللہ رب العزت کی عطا کردہ بے شمار اور لاتعداد نعمتوں کا شعور انسان کو عطا کرنے والے سے محبت میں مبتلا کرتا ہے. یہ نعمتیں ان گنت ہیں اور اللہ تعالیٰ نے انسان کو ان کے شمار سے عاجز قرار دیا ہے. ارشاد ہوتا ہے :وان تعُدوا نعمتہ اللہ لا تُحصوھا.
ترجمہ : اور اگر تم اللہ کی نعمتوں کو شمار کرنا چاہو تو تم نہیں کر سکو گے. (النحل :18)
ان تمام نعمتوں کو بن مانگے عطا کرنے والے کا حق ہے کہ اس سے احسان شناسی کے طور پر محبت کی جائے. کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ اللہ کے احسانات کا تقاضا یہ ہے کہ ہم اس کے احسان کو دل سے تسلیم کریں اور جواباً ویسا ہی اچھا سلوک کریں. فرمانِ خداوندی ہے:واحسن کما احسن اللہ الیک.
ترجمہ :جیسے اللہ نے تیرے ساتھ احسان کیا ہے تو بھی ویسا ہی اچھا معاملہ کر. (القصص :77)
ذاتِ خداوندی کو جاننا
اللہ کے پیارے ناموں، صفات اور افعال کو پہچاننا۔ اور جس نے اللہ کو پہچان لیا وہ یقینی طور پر اس کی محبت میں مبتلا ہو گیا۔ اور جسے محبت مل جاتی ہے وہ اس کی اطاعت خود پر لازم کر لیتا ہے اور جو اللہ کی اطاعت کرتا ہے، اللہ اُسے دنیا و آخرت میں عزت دیتا ہے، جسے دنیا و آخرت کی عزت مل گئی، اسے اللہ کی رحمت کے سائے میں جگہ مل گئی اور جسے اُس ذات کی رحمت میں جگہ مل جائے اس سے بڑھ کر اور کون خوش نصیب ہو سکتا ہے۔
صفاتِ خداوندی کا علم
اللہ کے اسماء و صفات اور اس کی معرفت کو ہمیشہ دل و دماغ میں مستحضر رکھنا، آسمانوں اور زمین کی خلقت میں غور و فکر کرنا اور اللہ کی ان مخلوقات پر تفکر کرنا جو اس کی عظمت، قدرت، جلال، کمال، بڑائی، نرمی، رحمت اور شفقت کی دلیل ہیں. اللہ کی صفات کو جاننے سے اس کی معرفت بندے کے دل میں قوی ہوتی ہے اور یہی معرفت پہلے محبت اور پھر اطاعت کا باعث بنتی ہے۔
خواہشاتِ نفس کی مخالفت کرنا
اپنی نفسانی خواہشات اور رغبتوں کے سامنے اللہ تعالیٰ کی محبوب چیزوں کو فوقیت دینا۔ جو شخص اللہ کے ساتھ محبت میں سچائی اور اخلاص کا دامن تھامے رہتا ہے اور اپنی خواہشات نفس کی اُس کی ناراضگی کے امور سرانجام نہیں دیتا، اس کا یہ فعل اس پر اللہ کے فضل اور محبت کا ذریعہ بن جاتا ہے۔
ذکرِ الٰہی کی کثرت
محبت کرنے والا اپنے محبوب کا ذکر کثرت سے اور بات بے بات کرنا پسند کرتا ہے. محبت الٰہی اطمینان قلب کا باعث ہے اور دلوں کا اطمینان محبوب کو کثرت سے یاد کرنے میں ہے. ارشاد ہوتا ہے. الا بذکر اللہ تطمئن القلوب.
ترجمہ :آگاہ رہو دلوں کو اطمینان اللہ کے ذکر سے ہی ملتا ہے. (الرعد :28)
دل و زبان اور عمل و کردار سے اللہ تعالیٰ کے ذکر کی عادت دائمی طور پر اپنانے سے اللہ تعالیٰ کی محبت نصیب ہوتی ہے۔ (جاری ہے)
6 پر “اللہ تعالیٰ کی محبت کیسے حاصل کی جائے؟ (1)” جوابات
Ma aha ALLAH boht boht Khoob…..Allah ta’ala ap ko Jaza e khair aha farmaayen….Khush rahiye
Khubsurat tehreer ♥️Allah Pak hums bko Amal krny kr tofeeq den.
ماشااللہ بہت خوبصورت تحریر .اللہ آپ کی اور ہم سب کی توفیقات میں اضافہ کرے اور آسانیاں برتنے کی توفیق عطا فرماے. اور ہم سب کو اپنی سچی محبت سے نوازے. آمین ❤
Ma sha Allah… Bhtt khoob.. Allah Pak hm sb k dilon mn apni mhbt peda kren.. Ameeen
Ma’sha’Allah khubsurat tehreer..Allah Pak hum sb ky diloun ko apni sachiii muhabbat sy munawar kr dai or Allah apko apny is khubsurat kaam myn kamyab kry.. ameen..Sum ameen
MashAllah….umdaaa. Tehreeer……boht khobsorti. Say qalmband kia hy…is tehreer. Ko parhny kay bad Allah pay mera emaan boht mazbot hoa hy…Allah ap ko boht ajaar dy ..ameen