کعبۃ اللہ، مکۃ المکرمہ میں نماز ک ادائیگی

اللہ تعالیٰ کی بندگی کا اصل مزہ کیسے حاصل ہو؟

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

افشاں زرین۔۔۔۔۔۔۔
کیا ہماری عبادت محض ایک میکینکی عمل ہے یا یہ خالق اور مخلوق کے درمیان براہ راست تعلق کو استوار کرنے کا ذریعہ بھی ہے۔

کیا نیک اعمال صرف جنت کے حصول کے لیے کیے جاتے ہیں یا ربِ کائنات کی محبت حاصل کرنے کا ذریعہ بھی ہے۔

یہ ہر فرد ِ واحد کا انفرادی معاملہ ہے کہ اس کے قَلب اور رَب میں قربت کتنی ہے۔ اور یقیناً سکونِ دل کا انحصار بھی اس رشتے کی مضبوطی پر ہے۔

بندے کی بندگی اس کو جنت کی طرف لے جاتی ہے، اور عشقِ خدا اس کو بندگی کی معراج پر پہنچا دیتا جہاں دنیا کی طلب بےمعنی اور خودی کہیں گم ہو جاتی ہے ، ربِ ذوالجلا ل کی عظمت ہر سو نظر آتی ہے۔

الحمداللہ! ہمارے معاشرے میں بہت سے لوگ دین دار ہیں، دین پر چلنے کی حتی الامکان سعی کرتے ہیں اللہ ان کی کوششوں کو قبول فرمائیں، آمین۔

اسی طرح ایک بندہ ِخدا کا تعلق ایک دینی گھرانے سے تھا اور پھر پاکیزہ فطرت اور اچھی سوچ کا حامل یہ انسان جو کہ صوم و صلوۃ کا پابند بچپن سے ہی تھا ۔

کسی بھی پریشانی یا مشکل وقت میں صدقہ کرنا اس کی پختہ عادت تھی، نہایت شریف النفس اور نرم دل کا مالک یہ انسان تعلق داروں کے ساتھ بھی عمدہ مراسم روا رکھے ہوئے تھا۔

اپنے بچوں کو دنیا کی اعلیٰ تعلیم کے ساتھ ساتھ دینی تعلیم سے بھی روشناس کروایا تھا، پچھلے دنوں محلے کی مسجد میں درس کے دوران امام صاحب نے مسجد کی تعمیر میں حصہ لینے سے جنت میں محل حاصل ہونے کا بتایا تو اس سے رہا نہ گیا اور ایک خطیر رقم اس مَد میں جمع کرا آیا۔

مختصراً جنت کے حصول کی تگ و دو میں منہمک شریف الفطرت یہ انسان ایک نامعلوم سی تشنگی کا بھی شکار تھا، روح میں ایک خلا سا تھا،۔۔۔ کیوں تھا، ۔۔۔۔کیا تھا،۔۔۔۔ سمجھ سے بالا تر تھا۔

عمر کے اس حصے میں جب بہت سی ذمہ داریاں ختم ہو جاتی ہیں، اولاد اپنی اپنی ذمہ داریاں سنبھال لیتی ہیں تو محض زندگی گزارنے کے لیے تھوڑی بہت دُنیاوی جدوجہد باقی رہ جاتی ہے۔

پھر وقت ہی وقت ہوتا ہے اپنی ذات کو جانچنے کے لئے، اپنے اعمال کو پرکھنے کے لیے، اپنی عاقبت سنوارنے کے لئے اور اس وقت اسے اپنی ذات میں موجود اس خلا کا ،اس اضطراب کا شدت سے احساس ہو رہا تھا۔

آج فجر کی نماز کے بعد اللہ کے حضور اپنے دل کے سکون کے لئے آنسوؤں سے لبریز ہو کر بہت دیر تک دعا مانگی، لرزتے لب سے اللہ سے فریاد کی! اے اللہ تیرے ذکر میں تیری یاد میں اطمینانِ قلب ہے اپنے فضل سے مجھے سکونِ دل عطا فرما، مجھے عقل و فہم سے نواز ، میری روح کی خلش کو دُور فرما۔

نماز سے فارغ ہو کر قرآن مجید کی تلاوت کی نیت سے قرآن کھولا، اور جب اس آیت پر پہنچا

إِنَّ صَلَاتِى وَنُسُكِى وَمَحْيَاىَ وَمَمَاتِى لِلَّهِ رَبِّ ٱلْعَٰلَمِينَ

"کہہ دو کہ بے شک میری نماز اور میری قربانی اور میرا جینا اور میرا مرنا اللہ ہی کے لیے ہے جو سارے جہان کا پالنے والا ہے”۔

اور یہ آیت پڑھتے ہی اچانک ادراک ہوا جیسے عقل پر پڑے سارے کے سارے پردے اٹھ گئے اور سمجھ آ گئی کہ میرے دلِ بے بیقرار کی اصل وجہ کیا تھی۔

میری زندگی جو اب تک گزری اس میں جو جو نیک عمل کیا جو صدقہ و خیرات کیا جو مدد مخلوق ِخدا کی کرتا رہا وہ یا تو دنیاوی مشکلات وآلام سے بچنے کےلئے کیا کیوں کہ صدقہ مصائب کو دور کرتا ہے، یا پھر جنت کے حصول کے لئے کیا ،میرے ہر اچھے عمل کے پیچھے جنت کی طلب تھی

اس بات سے قطع نظر کہ میں اپنے رب کی محبت اور خوشنودی حاصل کرنے کے لیے اس کی عبادت کروں، میرا نیک عمل خالص اللہ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے ہو ، میں اپنے رب کی رضا کے لئے سرگرداں رہوں، اپنے رب سے وہ رشتہ استوار کروں جو مجھے میرے ہر رشتے سے پیارا ہو، جس میں کوئی غرض نہ ہو سوائے اپنے خالق کی رضا اور محبت کا حصول کارفرما ہو ۔

بیشک صدقات مصائب و آلام کو بہ اِذن الہی روکتے ہیں، نوافل، نماز حاجات کی صورت میں جائز مناجات کو قبولیت کا شرف بخشتی ہیں، اللہ کا قرب عطا کرتی ہیں ۔

لیکن کیا کبھی میری کوشش یہ رہی کہ میں صرف اور صرف اللہ کو راضی کرنے کے لیے صدقات و خیرات کروں ؟

رات کے آخری پہر جب اللہ اپنے بندوں کو پکارتا ہے کہ مجھ سے دعا مانگو میں تمہاری دعاؤں کو سنتا ہوں اس وقت جب اللہ بندے کے بہت ہی قریب ہوتا ہے تو کیا نماز تہجد میں اللہ سے ہم کلام ہو کر اس کی قربت کو محسوس کرنے کی کبھی سعی کی ؟

اس سے اسکی رضا طلب کی؟ اس کی محبت طلب کی؟ اپنے دل میں اللہ کی محبت ہر چیز ،ہر مخلوق سے بالا تر ہونے کی دعا کی؟ بلکہ میں تو صرف اور صرف اپنی کسی دنیاوی غرض کے حصول کے لیے رات کے آخری پہر میں اللہ سے فریاد کرتا رہا، اس سے اپنے کسی در پیش مسائل کے حل کا متقاضی بنا رہا،

اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمیں اپنی چھوٹی سی چھوٹی ضروریات کے لیے بھی اللہ ہی کے سامنے دستِ دراز ہونا چاہئے، کیوں کہ وہی خالقِ کائنات اور مختارِ کُل ہے۔

لیکن اے انسان ! تیری کوئی عبادت تو ایسی بھی ہو جس میں تُو صرف اور صرف محبتِ ِالہی کا طلبگار ہو ، کوئی دعا تو ایسی ہو جو صرف اور صرف نعمتِ ِخداوندی کے شکرانے سے بھرپور ہو اور دنیاوی حاجات سے مبرأ ہو،

کوئی سجدہ تو ایسا ہو جس میں تُو لذت ِ قربِ الہی کو محسوس کر سکے اور وہ سجدہ طویل سے طویل تر ہوتا چلا جائے ، کوئی صدقہ کوئی خیرات تو ایسی ہو جو کسی مجبور بندے ِ خدا کی حاجت کو پورا کرے اور اسکا صلہ صرف اور صرف اپنے رب کو راضی کرنے کا ہو۔

یہ آگاہی میرے رب کی ایک اعلیٰ ترین نعمت سے کم نہیں، صَد شکر میرے خالق و مالک کا ، مجھے موقع دیا کہ میں اپنے دل کے اندھیروں کو محبتِ الہی سے منور کر سکوں اور موت سے پہلے اس زندگی میں بھی جنت کا مزہ پاؤں۔ کیوں کہ

مطلوب ہو بندہ، گر حُبِ الہ کا
جنت تو صلہ ہے رب کی رضا کا


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں