ڈاکٹرجویریہ سعید:
آپ اکثر بچوں پر چیختی چلاتی ہیں،
غصہ کرتی ہیں،
اور انہیں مار بھی بیٹھتی ہیں۔
حالانکہ آپ جانتی ہیں کہ یہ اچھی بات نہیں۔ آپ بھی اچھی ماں بننا چاہتی ہیں۔ آپ اپنے بچے سے محبت کرتی ہیں۔ ایسا کرنے کے بعد آپ کو افسوس ہوتا ہے۔ رونا آتا ہے۔ مگر پھر آپ سے وہی عمل سرزد ہوجاتا ہے۔
آپ کو پتہ ہے، یہ بات جان کر یہی نصیحت کی جائے گی کہ بچوں کو نہ مارا کرو مگر یہ تو آپ بھی جانتی ہیں۔
ہم اس سے پہلے ایک اور سوال کرنا چاہتے ہیں۔
آپ بچے کو کیوں مارتی ہیں؟
کیا آپ کسی اور کا غصہ ان پر اتارتی ہیں؟
آپ کو سسرال والوں یا شوہر کی طرف سے بُرے رویے کا سامنا ہوتا ہے۔ یا آپ کے ساتھ کوئی بُرا سلوک کرتا ہے۔ آپ ان کو جواب نہیں دے سکتیں۔ غصہ اور نفرت ایک منفی توانائی کی صورت آپ کی اندر جمع ہوجاتے ہیں۔ آپ برائی کے جواب میں جوابی کاروائی کرلیتی ہیں، ادھر سے بھی جواب آتا ہے۔ اس منفی چکر کی وجہ سے نفرت اور غصہ ایک منفی توانائی کی صورت اندر بھرتا رہتا ہے۔
آپ لوگوں سے بے زار رہتی ہیں۔ ان کی کسی اچھی شے کو دیکھ کر آپ کے اندر حسد یا حسرت کے جذبات پیدا ہوتے ہیں اور یہ جذبات ایک منفی توانائی کی صورت آپ کے اندر جمع ہوتے رہتے ہیں۔
ان میں سے کوئی بھی وجہ ہو آپ کے اندر تلخی، نفرت، بےزاری اور غصے کی کڑواہٹ اور آگ جمع ہوتی جارہی ہے۔
منفی توانائی کا یہ طوفان باہر نکلنے کا راستہ چاہتا ہے۔ مقابل میں بچے ہی وہ کمزور مخلوق ہیں جن پر آگ اور کڑواہٹ کا طوفان نکال دیا جائے تو آپ کو جوابی ردعمل اور کسی مزاحمت کا سامنا نہ ہوگا۔
آپ اپنے بچوں کو اس اگال دان کے طور پر استعمال کرتی ہیں جو آپ کے معدے، ناک اور حلق سے نکلی تمام غلاظت کے اخراج کے لیے استعمال ہوتا ہے۔
آپ سوچیے کیا آپ کا بچہ آپ کا وہ اگال دان ہے جس میں آپ اپنے وجود کی غلاظتیں انڈیل کر آپ ہلکی پھلکی ہوجائیں؟
یا آپ کو منفی جذبات کی نکاسی کا کوئی اچھا اور صحت مند طریقہ سیکھنا چاہیے؟
کہیں آپ کو ڈیپریشن کا مرض تو نہیں؟
کیا آپ اکثر اداس اور چڑچڑی رہتی ہیں؟ آپ کو اکثر رونا آتا ہے۔ نیند الگ متاثر ہے۔ ہر چیز سے دل اٹھتا جارہا ہے۔ کوئی شے لطف نہیں دیتی۔ اکثر خود کو پچھتاووں میں گھرا پاتی ہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ زندگی میں امید ہی باقی نہیں۔ حالات اب کبھی نہیں بدلیں گے۔ اردگرد کے لوگ بے حس اور ظالم ہیں۔ وجود پر تھکن طاری رہتی ہے۔ کاموں کے لیے خود کو گھسیٹنا پڑتا ہے؟
ایک عرصہ سے آپ ان کیفیات میں مبتلا ہیں مگر کوئی سمجھتا نہیں۔ آپ کے گرد موجود لوگ سمجھتے ہیں کہ آپ کاہل اور کام چور ہیں، بہانے بناتی ہیں اور ہر وقت بے کار کا رونا مچائے رکھتی ہیں۔ اکثر گھر میں بدکلامی اور جھگڑوں کی نوبت آتی ہے ۔ ان سب باتوں کی وجہ سے آپ کے اندر امیدوں، جذبوں اور آرزوؤں کی راکھ جمع ہوتی جارہی ہے۔ اور باہر سے کسی قسم کی ہوا چل پڑے تو یہ راکھ اپنے گرد موجود سب سے کمزور مخلوق یعنی بچوں پر انڈیل دی جاتی ہے.
آپ سوچیے کیا آپ کے بچوں کو آپ کے جذبوں اور امیدوں کا شمشان گھاٹ یا وہ گڑوی بننا چاہیے جو اس راکھ کو سنبھالے رہتا ہے؟
کیا آپ کو اپنا علاج نہ کروانا چاہیے؟
یا
کہیں آپ موٹیویشنل اسپیکرز اور سوشل میڈیا سلیبریٹیز کی تقریریں، social media display of perfect parenting, اور پیرنٹنگ پر تقریریں اور ورکشاپ میں مثالی والدین اور مثالی بچوں کے تذکرے سن سن کر اس دباؤ کا شکار تو نہیں ہوگئیں کہ اس دوڑ میں خود بھی حصہ لینے کے چکر میں اکثر ہلکان ہوجاتی ہوں۔ اور خود کو دوسروں کے برابر نہ پانے کی وجہ سے فرسٹریشن میں مبتلا ہوجاتی ہوں۔
اس کے بچے کتنے اچھے ہیں۔
اس نے اپنے بچوں کو کیسے کہانی سنائی، کیسا آرٹ ورک کروایا، کیسے حفظ کروایا، کیسے تمیز سکھائی۔ اس کے بچے کیا کیا کررہے ہیں۔
ماں کو ایسا اور ایسا کرنا چاہیے۔
اور ایسا ایسا کرنے کہ صورت میں بچے کو ایسا اور ایسا ہوجانا چاہیے۔
اب آپ کے بے چارے بچے سے ایسی حرکت یا حرکتیں سرزد ہوجاتی ہیں جو سوشل میڈیا پر پیش نہیں کی جاسکتیں تو آپ اس کا مطلب یہ لیتی ہیں کہ آپ ناکام ہوگئیں۔
پھر آپ کبھی اس ناکامی کا ذمہ دار خود کو سمجھ کر مایوس ہوجاتی ہیں
اور کبھی بچے سے نفرت ہوتی ہے کہ وہ تو اتنا سکھانے پر بھی سنتا نہیں ۔
اور اس دباؤ میں آپ اپنی ”جلی ہوئی آرزوؤں“ اور ”تباہ شدہ اہداف“ کا ملبہ بچے پر اتار دیتی ہیں۔
آج کے اس سیشن کے بعد آپ کا ہوم ورک یہ ہے کہ یہاں نہ لکھیں۔ بلکہ تنہائی میں کسی کاپی پر بچوں پر چیخنے چلانے اور مار پیٹ کہ وجوہات سوچ سمجھ کر نکتہ وار لکھیے۔
اپنا جائزہ خود لیں کہ آپ ایسا کیوں کرتی ہیں۔
اس کے بعد نمبر وار لکھیے کہ ان وجوہات کا متبادل حل کیا ہوسکتا ہے۔ یعنی بچوں پر چلانے اور پیٹنے کے علاؤہ اور کیا کیا جاسکتا ہے؟
یہ سیشن سوشل میڈیا پر کسی کو دکھانے کے لیے نہیں ہے۔ اس طرح کے سیشنز بھی بہت سی ماؤں کے ساتھ کرچکی ہوں۔ آپ کے ساتھ یہاں کررہی ہوں۔
آپ کو کسی پر کچھ ثابت نہیں کرنا۔ اس لیے کسی کو کچھ نہ بتائیں مگر اپنا سچا تجزیہ کریں۔ اور سوچیں کیا آپ کو یہ کرنا چاہیے؟
اگر نہیں تو متبادل کیا ہوسکتا ہے؟
اچھے نتائج نکلیں تو راقم کو دعا دے دیجیے گا۔ یہی میری فیس ہے۔
ایک تبصرہ برائے “آپ بچوں کو کیوں مارتی ہیں؟ اپنا تجزیہ کرنا ضروری ہوگیا”
زبردست 😊 ایسی تحریریں کثرت سے شائع ہونی چاہئیں