ابن فاضل :
پہلے یہ پڑھیے :
ہائکنگ کے لیے مطلوبہ ضروری سازوسامان میں سب سے اہم سفری بستہ یا رک سیک ہوتا ہے، یہ عمرو عیال کی وہ زنبیل ہے کہ جس نے دیگر سارا سامان اپنے اندر سمویا ہوتا ہے. یاد رہے کہ اس کا وزن بلکہ ہائکنگ کیلئے منتخب کی گئی ہر چیز کا وزن کم سے کم ہونا چاہیے،
کیونکہ جب دس، بارہ یا پندرہ کلو کا رک سیک کمر پر لاد کرتیکھی بلکہ ستواں چڑھائیاں چڑھتے ہیں تو بڑے بڑے سورما اس لمحہ نازک پر کہ جب ان سے ہائکنگ کا فیصلہ سرزد ہوا، اس تخیل گمراہ کن اور اس شرپسند، خناس صفت پر جو موجب و ترغیب سفر ھذا ہوا، بیک وقت تین چار پانچ حرف بھیجتے پائے گئے ہیں.
بلکہ طویل مشاہدہ و تجربہ یہ بتاتا ہے کہ چڑھائیاں چڑھتے سمے شریف سے شریف ہائیکر کی نرم سے نرم طبع آزمائی، ہرزہ سرائی بھی اپنے اندر کرب و درد اور پشیمانی کی وہ فصاحت وبلاغت رکھتی ہے کہ اسے ضبطِ تحریر میں لانا تو کجا شرفا کی محافل میں نقل بھی نہیں کیا جاسکتا۔
لیکن آپ نے اس احوال سب و شتم سے ہرگز خائف و متفکر نہیں ہونا کیونکہ استاد صاحب کہا کرتے تھے کہ ہائکنگ کے مصائب ، زندگی بخشنے والی اس تکلیف سے مماثلت رکھتے ہیں کہ جس کے باعث انسان عالم آب وگل میں ہست وموجود ہوتا ہے اور جس کا تجربہ کرنے والا ہر متبرک ذی روح اس کی شدت تکلیف کی وجہ اس وقت عہد کرتا ہے آئندہ کبھی اس تجربہ سے نہیں گزرنا مگر تیسرے ماہ ہی پھر اس کیلئے شدید کشش محسوس کرتا ہے.
تو بات ہورہی تھی سازوسامان کی، رک سیک کے بعد باری آتی ہے سون تھیلے یعنی سلیپنگ بیگ کی عموماً بلندوبالا پہاڑی علاقوں میں برف سارا سال رہتی ہے سو رات میں درجہ حرارت صفر یا بسا اوقات اس سے بھی کم ہوجاتا ہے ایسے میں بقائے حیات اور بچائے انجماد کا سب سے بڑا آسرا سون تھیلا ہی ہوتا ہے۔
ہمارے عہد شباب میں ان دونوں اشیاء کی فراہمی کا ذمہ نیک دل افغانیوں کے سر تھا جو افغان جہاد کیلئے آئی امریکی امداد کوئٹہ لیاقت روڈ کے دکانداروں کو سستے داموں دان کردیا کرتے تھے. تاریخ جب لوگوں کو سبق سکھانے سے فارغ ہوئی تو گواہی دینے آئے گی کہ تمام حیات اس سے بہتر سون تھیلے اور سفری بستے دوبارہ ان دیوانوں نے نہ کبھی دیکھے نہ کبھی حاصل کر پائے۔
ان دو اشیاء کے علاوہ اہم ترین جزو خیمہ ہے. ہمارے پاس چھ لوگوں کی استعداد والا دو تہوں کا ایک زبردست خیمہ تھا، سرخ رنگ کا پیراشوٹ کا بنا یہ خیمہ ہماری درجنوں مہمات کا ساتھی، سینکڑوں شرارتوں اور خوش گپیوں کا چشم دید، گوش شنید گواہ جانے کہاں کس حال میں ہوگا. یاد نہیں کہاں سے آیا اور نہیں معلوم کہاں گیا.
گمان فاضل ہے کہ کوئی محب ادھار مانگ کر لے گیا. اور سرکار پاکستان کی طرح اب ادھار لوٹانے کی سکت ہے اور نہ ارادہ ۔ اور یہ بھی بعید از قیاس نہیں کہ جس کا ہو وہی واپس لے گیا ہو۔ انسان کو ہر حال میں اچھا گمان ہی رکھنا چاہیے۔
خیمے کے علاوہ سفری چولہا، چھوٹا بیلچہ، مٹی کے تیل بوتل، پکانے کے برتن، صابن، خوراک اور ادویات کا ذخیرہ وہ سامان ہوتا ہے جو مشترکہ طور پر سب ٹیم. ممبران کو آپس میں بانٹ کراٹھانا پڑتا ہے. لہذا عام طور ساری حتمی پیکنگ بوقت روانگی ایک جگہ اکٹھے ہوکر کرہوا کرتی تھی. اور وہ جگہ عموماً ہمارے گھر کا مردان خانہ ہوتا کہ
تمہیں نے درد دیا ہے تمہیں دوا کرنا
یہ مرحلہ جاں گسل کسی طور بھی میدان حشر سے کم نہ ہوتا کہ ایک کی خواہش ہوتی کہ مشترکہ سامان میں سے کم سے کم اس کے حصہ میں آئے. ایسا گھمسان کا رن پڑتا کہ امیر قافلہ کی وقعت اس وقت محض گھر کے سربراہ سی ہوکر رہ جاتی. اس مرحلہ پر کھوکھر صاحب اور چٹا صاحب کی ازلی ودیرینہ دشمنی بھی بھرپور کردار ادا کرتی کہ ہر دو میں اینٹ اور حفاظت کیلئے مختص جانور کا بیر تھا، اور آج تک فیصلہ محفوظ و ملٹوک ہے کہ اینٹ کون ہے. گھنٹہ بھر پر مشتمل یہ جنگ وجدل شاید پوری مہم کا سب سے پر شور اور پسینہ آور حصہ ہوتا جس کے بعد پھر راوی ہی نہیں ستلج بھی کافی دیر چین ہی چین لکھتا۔
اپنے اپنے سفری بستے زیب کمر کیے، لباس افرنگ میں ملبوس جب چار جری جوانوں کا قافلہ ہائکنگ سٹکس ہاتھوں میں لیے رات کے اندھیرے میں گھر سے نکل کر جانب بس سٹاپ پیدل عازم سفر ہوتا تو اہل محلہ اور راہی بالکل یونہی دیکھتے جیسے ہم کوئی غیرزمینی مخلوق ہوں اور ابھی ابھی اڑن طشتری سے برآمد ہوئے ہوں.
آغاز سفر کا اس مرحلہ کیلئے ہمیشہ نصف شب سے کچھ دیر قبل کا انتخاب بوجوہ کیا جاتا کہ سکائی ویز کی لاہور سے راولپنڈی جانے والی آخری بس ساڑھے بارہ یا ایک بجے روانہ ہوتی اور صبح چھ بجے راولپنڈی پہنچتی. وہی آخری بس ہمارا اولین ہدف ہوتا. لیجیے صاحب ہم نو نمبر ویگن پر بیٹھ کر ریلوے اسٹیشن سے پہلے چرچ سٹاپ پر پہنچ چکے ہیں. جہاں ایک عرصہ تک سکائی ویز کا بس اڈہ رہا.
بس حسب توقع روانہ ہوئی. ہم سیٹوں پر دستیاب کشادگی میں آڑھے ترچھے حلقہ بگوش نیند رہے. تاوقتیکہ کہ لالہ موسیٰ کے اس ہوٹل پہنچ گئے جہاں بس اور سواریوں نے آدھ گھنٹے کا سٹاپ کرنا تھا. مابدولت اور غوری چائے اور چٹے اور کھوکھر لڑائی سے محظوظ ہوتے رہے۔ اس بار وجہ نزاع قومی تھی یعنی کرسی. جس کرسی پر چٹے نے بیٹھنا تھا اس پر کھوکھر صاحب قابض ہو گئے تھے۔
شاید وزیرآباد سے تعلق ہونے کی وجہ لالہ موسیٰ ان کو اپنی سلطنت کا حصہ محسوس ہوتا تھا سو شیر ہوئے تھے. تاہم اس معمولی کرسی جھڑپ کے بعد سب خیریت رہی اور ہم صبح چھ بجے فیض آباد راولپنڈی پہنچ گئے. وہاں سے بغیر وقت ضائع کیے کالی پیلی ٹیکسی کی مدد سے پیرودھائی بس اڈے پہنچے. کیونکہ ہمارے علم کے مطابق ناٹکو کی بس کو گلگت کیلئے پیرودھائی سے آٹھ بجے روانہ ہونا تھا.
ناٹکو NATCO بنیادی طور پر ناردرن ایریا ٹرانسپورٹ کمپنی ایک سرکاری ادارہ ہے جو شمالی علاقہ جات میں شہریوں کی آمدورفت کا ذمہ دار ہے . آج کل تو یہ بہت اچھے طریقے سے کام کررہا ہے. زبردست ائیر کنڈیشنڈ بسیں ہیں، زمینی میزبان ہیں، آن لائن بکنگ وغیرہ کی سہولت میسر ہے مگر اس وقت اس کا حال بس دیگر سرکاری اداروں جیسا ہی ہوتا تھا. یعنی جیسے غریب کا بال ہو۔
بس اڈے میں سب سے الگ تھلگ ایک طرف ایک چھوٹا سا کمرہ تھا، جس کی بیرونی دیوار پر پلستر نہیں ہوا تھا. دیوار میں فلموں میں دکھائی جانے والی جیل کی کھڑکی جیسی ایک کھڑکی کے پیچھے ایک صاحب خاکی شرٹ اور دھوتی میں ملبوس تشریف فرما تھے۔ ان کے پیچھے لوہے کے پائپ اور بان سے بنی ایک چارپائی کھڑی تھی جس کے ایک پائے کے ساتھ ایک خاکی پینٹ لٹک رہی تھی۔
گلگت کی بس کس وقت روانہ ہوگی؟ ہم نے پوچھا. ایک بجے دوپہر. اوہ. ایک بجے. اس سے پہلے کوئی نہیں. نہیں آج بس ایک بجے جائے گی. اب ایک صورت یہ بچتی تھی کہ قسطوں میں سفر کرتے. یعنی یہاں سے ایبٹ آباد، وہاں سے پہلے پٹن پھر داسو اور وہاں سے پھر آگے لیکن اس میں زیادہ غیر یقینی اور خواری ہونے کے امکانات تھے. سو ہم نے کھڑے کھڑے فیصلہ کیا. جگلوٹ کیلیے چار سیٹیں. جگلوٹ گلگت سے قریب ساٹھ کلومیٹر پہلے ایک بستی ہے. جس کے متعلق ہمیں معلوم ہوا تھا کہ یہاں سے استور کے لیے گاڑیاں جاتی ہیں.
ٹکٹ حاصل کرنے کے بعد اب یہ مرحلہ پرپیچ درپیش تھا کہ چھ گھنٹے کیسے گزارے جائیں کہ
دوپہر کرنا صبح کا ہے لانا جوئے شیر کا
سب سے پہلے ناشتہ کیاگیا. راولپنڈی میں جو خمیرے میدے کے پراٹھے، زیادہ سارے گھی میں پوری کی طرح ڈبوکر بنائے جاتے ہیں، وہ ہمیں ہمیشہ سے بہت پسند رہے لیکن ظلم یہ ہے کہ وہ لوگ انڈہ بھی اسی وافر کڑکتے گھی میں فرائی کرتے ہیں. جب باہر نکالتے ہیں تو فرائی انڈے کا الٹا سیدھا برابر ہواہوتا ہے. بالکل جیسے عدنان سمیع خان ہوتے تھے کبھی۔
ناشتہ کر چکنے کے بعد بس اڈہ میں ہی ایک گوشہ عافیت تلاش کیا گیا. جہاں سارا سامان ایک طرف ڈھیر کیا اور خود ایک چادر بچھا کر لگے تاش کھیلنے. جو لوگ تاش کی کھیل ’ رنگ ‘ سے آشنا ہیں وہ جانتے ہوں گے کہ زندگی کا اصل رنگ تو یہی ہے کہ
وجود ’ رنگ ‘ سے ہے کائنات میں رنگ
ہمارے خیال میں یہ موبائل فون یا سماجی ذرائع ابلاغ سے ہٹ کرروئے زمین پر یہ رنگ ہی ہے جو انسانوں کو ہوش وخرد سے بیگانہ کردیتا ہے. سو ہم بھی ہورہے. تاوقتیکہ ہمارے سامنے ایک سرخ رنگ کی لوہے کی چوکور سی شے تھرکتی لڑھکتی آکر نہ کھڑی ہوگئی. ناٹکو والوں کا دعویٰ تھا کہ یہی وہ بس ہے جس کا وعدہ ہم سے آج علی الصبح بوقت فروختگی ٹکٹ کیا گیا تھا. اور ہمارے پاس اس دعوے کو رد کرنے کے لیے کوئی ٹھوس دلیل بہرحال نہ تھی. کیونکہ اس چیز کے چاروں طرف گھوم کر بغور دیکھنے کے بعد ہم چاروں اسی نتیجے پر پہنچے تھے کہ یہ بہرحال بس ہی تھی اگرچہ اس کی بس ہوچکی تھی.