استور وادی ، گلگت بلتستان

انمول خزانے، خوابیدہ وارث (2)

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

ابن فاضل :

یہ بھی پڑھیے:

انمول خزانوں کے سوئے ہوئے وارث (1)

استور کے نواح میں خیمہ زن تھے، گرد ونواح کے کچھ لوگ آگئے ، گپ شپ جاری تھی۔ ایک صاحب بضد تھے کہ رات کا کھانا ان کی طرف سے۔ بہت تعرض کیا لیکن ان کے خلوص کے سامنے ہار ماننا پڑی۔ وہ کچھ دیر میں آئے. بڑی رنگین چنگیر میں روٹیاں اور سلور کے انتہائی چمکتے کولے میں گھر کی بنی دال ماش. ایک چھوٹی پیالی میں دیسی گھی.

وہ گھی کیا تھا کوئی کمال کی چیز تھی. انتہائی سفید اور باریک دانےدار. بالکل بھی کوئی ہیک یا خوشبو نہیں. ایسا نرالا دیسی گھی پہلی بار دیکھا اور چکھا. حیرت سے میزبان سے پوچھا کہ ایسا زبردست معیار کیسے ممکن ہوا.

انہوں نے جو تفصیل بتائی حیرت انگیز ہے. کہنے لگے کہ ہمارے علاقے میں ایک درخت پایا جاتا ہے جس پر سے بالکل سفید کاغذ جیسی پرتیں اترتی ہیں. ہم عام طریقے سے مکھن نکالتے ہیں، پھر اس کو گرم کرکے اس کا گھی بناتے ہیں. پھر اس کاغذ نما پرت میں اس گھی کو لپیٹ کر زمیں میں آدمی جتنا گڑھا کھود کر دبا دیتے ہیں. ایک سال بعد نکالتے ہیں. تب یہ ایسا ہوا ہوتا ہے.

میں نے اس سے درخواست کی کہ مجھے کچھ گھی قیمتاً لادو. وہ نہیں مانا. مگر کچھ اس نے تحفتاً دیا. جس نے دیکھا، چکھا ، حیران ہوا.

اب سوچیں کیسی زبردست نعمت ہے. منظم طریقہ سے اس درخت کی کاشت کریں. باقاعدہ ڈیری فامنگ ہو. اسی معیار کا گھی اسی طریقے سے تیار ہو. دنیا کو وڈیوز کے ذریعہ اس کا طریقہ بتائیں. مشہور لیبارٹریوں سے ٹسٹ کروائیں. رپورٹیں جاری کریں.

یہ لورپاک کیا بیچتا ہے اس کے آگے. ساری دنیا کے روؤسا آپ کے گاہک ہوں گے.دنیا کو تو چھوڑیں عربوں کو ہی باور کروادیں. دیکھیں سالوں میں پورے علاقے کی تقدیر بدلتی ہے کہ نہیں.

استور سے کشمیر کی طرف جانے کیلئے دو تین درے ہیں. ایک شنٹر پاس ہے. ایک میر ملک ایک پھولوؤئی. ہم نے شنٹر کا انتخاب کیا. راستے میں رٹو ایک چھوٹا سا قصبہ پڑتا ہے. آرمی کا ٹریننگ سینٹر ہے. کیا ہی خوبصورت جگہ ہے. وہاں ایک روز قیام کیا. ایک سکول تھا اس کے بچوں کو پڑھایا. سکول کے ہیڈ ماسٹر صاحب سے لمبی گپ لگائی.

کہنے لگے اس علاقے میں ایک درخت ہے جس کی چھال کو پیس لیا جائے اتو بالکل برنال بن جاتا ہے. ہمیں انہوں نے دکھایا. واقعی رنگ بھی بالکل ویسا اور بقول ان کے کارکردگی بھی اس سے بہتر قدرتی اینٹی سپٹک. دنیا آرگینک پر منتقل ہورہی ہے. آپ اندازہ نہیں کرسکتے کہ آرگینک اینٹی سیپٹک کی کیا قیمت ہوگی. آپ ہزار ڈالر فی کلو بھی بیچیں، لیں گے. کیوں ہم ان درختوں کے باغات نہیں بنا سکتے کیوں ہم اس کے خواص پر ریسرچ پیپر نہیں لکھ سکتے، کیوں ہم خوشحال نہیں ہوتے۔

ادھر کیلیفورنیا امریکا کی ایک خشک جھیل کی سطح پر پتھروں کے چلنے کے نشان نظر آتے تھے. کئی سال لوگ اس کی کھوج میں رہے کہ یہ کیسے پڑتے ہیں. جدید ترین کیمروں، جی پی ایس اور سوفٹ وئیر کی مدد سے کئی سائنسدانوں نے مہینوں کی تگ ودو کے بعد پتہ چلایا کہ کیا معاملہ ہے.حالانکہ وہ صرف ایک عمل تھا جس کے کھوج سے انسانوں کا کوئی بھلا ہونے کے امکانات کم تھے. اسے سیلنگ سٹون کا نام دیا ہے.

ادھر چلاس کی سلاجیت کا بڑا غلغلہ ہے. کسی نے کی آج تک کوئی سائنٹفک سٹڈی کی ہے؟ کبھی کوئی کیمیائی تجزیہ کون سے منرلز ہیں اور کون سے نیوٹرینٹس؟ کس طرح جسم کے لیے فائدہ مند ہیں؟ ہیں بھی یا نہیں؟ اگر ہیں تو کیسے اس کی پیداوار بڑھائی جائے؟ کسی مائینگ انجینئر کو اس جگی لے جائیں، جہاں سے نکلتی ہے. وہ پتھروں کا تجزیہ کرے، ان عوامل کو دیکھے جو اس کی سکریشن کا باعث ہیں. غور کرے کہ کیسے بڑے پیمانے پر انسانوں کی خوش حالی کیلیے اس نعمت خداوندی کا استعمال کیا جائے؟
مگر کیوں… ہمیں شکووں سے فرصت ملے تب نا…


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں