ابنِ فاضل۔۔۔۔۔
عہد شباب میں بہت کوہ نوردی کی، ایک بار دیوسائی کا ارادہ تھا، کوئی ربع صدی پرانی بات ہوگی۔ جھیل ست پارہ سے آگے ایک گاؤں ہے اس کے باہر خیمہ لگایا۔ گاؤں کے ایک جوان، غلام نبی نام تھا، کو بطور گائیڈ اور پورٹر مشاہرہ پر ساتھ لیا۔
اگلے روز علی الصبح اٹھے، سامان سمیٹا اور منزل کی طرف کوچ کیا۔ دوپہر کے بعد درہ پر پہنچے، درہ دیوسائی کا دروازہ ہے، کافی بلندی پر ہے، اس کے بعد کچھ اترائی ہے اور آگے سحر انگیز دیوسائی۔
چار دوست تھے اور میں حسبِ معمول گروپ لیڈر۔ درجنوں بار کی کوہ پیمائی میں آج پہلی بار ایسا ہوا کہ مجھے ہائٹ سکنس ہوگئی۔ عجب کیفیت تھی،ناقابل بیان اور انتہائی تکلیف دہ۔ اک عجیب سا خوف..
ہدف سے کچھ پہلے ہی خیمہ نصب کردیا اور طبیعت بحال کرنے کی کوشش کرنے لگا لیکن افاقہ نہ ہوا یہاں تک کہ میں نے دوستوں سے کہہ دیا کہ مجھے واپس جانا ہوگا، آپ سفر جاری رکھیں۔ دریں اثناء غلام نبی خیمہ سے ایک چھوٹا سا برتن لے کر غائب ہوگیا۔
آدھ گھنٹے بعد جب پلٹا تو برتن میں دودھ تھا۔ یاک کا دودھ۔ اس نے بیحد اصرار کرکے وہ دودھ مجھے پلادیا۔ خاصا گاڑھا تھا جیسے ربڑی والا دودھ ہوتا ہے۔ میں نے ڈرتے ڈرتے بمشکل تمام ایک کپ پی لیا۔
بیس منٹ گزرے ہوں گے اور میں دوستوں سے کہہ رہا تھا:”اٹھو سفر دوبارہ شروع کریں”۔ اس قدر زبردست ٹانک.. خدا کی شان! آج بھی جب کبھی طبیعت بوجھل ہو تو جی کرتا ہے کہیں سے غلام نبی ایک کپ یاک کا دودھ لادے، چاہے ہزار روپیہ لےجائے۔
سوال یہ ہے کہ اس قدر کمال شے کی کوئی سٹڈی ہوئی؟ کبھی کسی نے اس کی باقاعدہ پیداوار کا سوچا؟ کبھی کسی مقامی نے غور کیا کہ عام بھینس اور اس کے اختلاط سے کوئی ایسی نسل بنائی جائے جو ایسا ٹانک زیادہ مقدار میں پیدا کرسکے؟
اگر خدائے بزرگ و برتر کی یہ عنایت کسی اور ملک میں ہوتی تو ساری دنیا کو اس کی درآمد ہورہی ہوتی۔ آخر کیوں ہم ارد گرد کی چیزوں پر غور نہیں کرتے..؟
استور سے راما جھیل کی طرف جاتے ہوئے ہم نے دیکھا کہ ایک پہاڑی نالے میں دور سے ایک چھوٹا نالا کافی ساری زمیں کاٹ کر ملایا گیا ہے۔ بڑی حیرانی ہوئی کہ اتنا تردد کرنے کی کیا ضرورت ہو سکتی ہے!
مقامی لوگوں سے پوچھا، کہنے لگے کہ اگر صرف بڑے نالے کے پانی سے زمین سیراب کریں تو چوہے بہت پیدا ہوتے ہیں۔ فصلیں تباہ کرتے ہیں.۔چھوٹے نالے کی آمیزش سے چوہے ختم ہوجاتے ہیں، فصل اچھی ہوتی ہے۔
بڑی حیرانی ہوئی. پوچھا کہ پتہ لگانا تھا کہ چھوٹا نالہ کہاں سے آتا ہے کس پتھر سے کون سے کیمیائی مادے کی آمیزش ہوتی ہے جس سے یہ خوبی پیدا ہوتی ہے، جواب ندارد، کبھی کسی نے سوچا ہی نہیں..
اگر کچھ شوق ہو، کچھ ترقی کی جستجو ہو، کچھ خوشحالی کی آرزو ہو تو پانی کا ٹیسٹ کروایا جاسکتا ہے۔ ان پتھروں کا کھوج لگایا جاسکتا ہے کہ جن کی آمیزش سے اس قدر زبردست خوبی پیدا ہوئی۔ ان کو پیس کر بوریوں میں بھر کرپورے ملک کو بیچا جاسکتا ہے کہ مصنوعی زہروں سے ہزار گنا بہتر چوہے مار قدرتی شے ہے، کتنی فیکٹریاں لگتیں! کتنے گھرانے خوشحال ہوتے! کوئی تو سوچے! کوئی تو کرے!
ایبٹ آباد سے کچھ آگے ایک پہاڑی نالے کے پاس خیمہ لگایا۔ ایک دوست نے نالے کے پانی سے سر دھویا، کچھ دیر بعد بال ایسے جیسے مہندی لگائی ہو، ایک دم بھورے اور زبردست چمکدار۔ یقین نہیں ہورہا تھا۔
قدرتی ہئیر ڈائی نامعلوم کب اور کہاں سے پانی میں گھل گھل کر آرہی ہے۔ گوروں کو بتایا ہو کہ قدرتی ہے، منہ مانگی قیمت پرلیں مگر کسی کو پریشان ہونے سے فرصت ہوتو سوچے۔